ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے دیرینہ تنازع کے حوالے سے ایک نیا متنازعہ منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت وہ غزہ پر امریکی کنٹرول قائم کرکے اسے از سر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق، جنگ کے بعد غزہ کو امریکی سرپرستی میں ایک جدید ترقی یافتہ علاقہ بنایا جائے گا، جسے وہ "مڈل ایسٹ کی ریوئرا" کا نام دیتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت موجودہ فلسطینی آبادی کو غزہ سے بے دخل کرکے، خاص طور پر مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور ان کی واپسی کے حق کو ختم کرنے کی بات بھی شامل ہے، یعنی دوسرے معنوں میں تعمیر نو کے بعد گویا پورا فلسطین اسرائیل کے سپرد کردیا جائے گا نیز فلسطین کو عملی طور پر دنیا کے نقشے سے ہٹانے کی مکمل سازش تیار ہوگئی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس منصوبے کی بھرپور حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اسرائیل کے مفاد میں بہترین حل ہے، جبکہ اسرائیلی فوج کو بھی ممکنہ منتقلی کی تیاریوں کا عندیہ دیا گیا ہے۔ تاہم یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہوا ہے۔ مصر، اردن، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے اسے نسل کشی پر مبنی تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، جبکہ بین الاقوامی ماہرین قانون کے مطابق کسی بھی قوم کو جبراً اس کے وطن سے نکالنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
فلسطینی تنظیموں اور عوام نے اس منصوبے کو اپنے وجود کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ منصوبہ نہ صرف ان کی زمین پر قبضہ مضبوط کرنے کی کوشش ہے بلکہ ان کی نسل کشی اور بے دخلی کی ایک سازش بھی ہے۔ ٹرمپ کے سابقہ دور میں بھی اسرائیل کے حق میں یکطرفہ اقدامات کیے گئے تھے جن میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا شامل تھا، لہٰذا اس تازہ تجویز کو بھی اسی پالیسی کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے۔
بہرحال، موجودہ حالات میں اس منصوبے کی عملی حیثیت، قانونی جواز اور اخلاقی پہلو شدید سوالات کی زد میں ہیں، اور اسے فلسطین اسرائیل تنازعے کے پرامن حل کے بجائے ایک نیا تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعہ صرف دو قوموں کا زمینی جھگڑا نہیں، بلکہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جو صدیوں پر محیط تاریخ، مذہبی حساسیت، سیاسی مفادات، اور عالمی طاقتوں کی ترجیحات سے جُڑا ہوا ہے۔ اس مسئلے نے دنیا کو متعدد جنگوں، لاکھوں بےگھر افراد، انسانی حقوق کی پامالی، اور مذہبی منافرت کے بیج دئیے ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی آسان حل موجود نہیں، لیکن اسلامی دنیا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی اکثریت کی نظر میں "دو قومی حل" (Two-State Solution) ایک قابلِ عمل، حقیقت پسندانہ اور منصفانہ راستہ ہے۔ یہ حل فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت، اسرائیلی ریاست کی سلامتی، اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے امکانات کو یکجا کرتا ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین کی سرزمین ہزاروں سال سے مختلف اقوام، ادیان، اور تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے۔ تاہم جدید دور میں اس خطے کا قضیہ اس وقت سنگین ہوا جب 1917ء میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک "قومی گھر" کے قیام کی حمایت کی۔ اس کے بعد کے عشروں میں بڑی تعداد میں یورپی یہودی مہاجرین نے فلسطین کا رُخ کیا، جس سے مقامی عرب آبادی کے ساتھ شدید تنازعہ جنم لینے لگا۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی (نکبہ) نے اس بحران کو بین الاقوامی انسانی مسئلے میں تبدیل کر دیا۔
1948 سے 1967 تک کے دور میں فلسطینیوں کی زمینیں مرحلہ وار اسرائیلی کنٹرول میں جاتی رہیں۔ 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ (Six-Day War) کے نتیجے میں مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم، اور غزہ پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ اسی دور میں فلسطینیوں نے "پی ایل او" کے تحت اپنی جدوجہد کو منظم کیا اور اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر آزادی کی تحریک کو تقویت دی۔ 1993-95 کے اوسلو معاہدے امید کی ایک کرن لے کر آئے، جہاں فریقین نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر مستقبل کے مذاکرات پر اتفاق کیا، تاہم زمینی حقائق، اسرائیلی آبادکاری، اور اعتماد کے فقدان نے اس عمل کو آگے نہ بڑھنے دیا۔
"دو قومی حل" کی اصطلاح ایک ایسے فارمولے کی نمائندگی کرتی ہے جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین دو علیحدہ، خودمختار، اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ریاستیں ہوں گی۔ اس حل کا قانونی و سیاسی ڈھانچہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، اوسلو معاہدوں، اور عالمی سفارتی رویوں پر استوار ہے۔ یروشلم کا مسئلہ، واپسی کا حق، بارڈر کی حدبندی، اور سیکیورٹی جیسے معاملات اس میں بنیادی نکات ہیں۔
آج دنیا میں اکثر ممالک بشمول یورپی یونین، چین، روس، اور حتیٰ کہ امریکہ بھی رسمی طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، اگرچہ ان کی پالیسیوں میں تضاد موجود ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومتیں عمومی طور پر اس حل سے انکار کرتی آئی ہیں یا ایسی شرائط عائد کرتی ہیں جو اس منصوبے کو غیر مؤثر بنا دیتی ہیں۔ فلسطینی قیادت کا بھی داخلی طور پر انتشار اس حل کے لیے ایک چیلنج رہا ہے۔ حماس اور فتح کی باہمی چپقلش نے قومی اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔
اسلامی دنیا، بالخصوص او آئی سی (OIC) اور عرب لیگ، ہمیشہ دو قومی حل کی حمایت کرتی آئی ہیں۔ او آئی سی کے حالیہ اجلاسوں میں فلسطینی ریاست کے قیام، القدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنے، اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے حوالے سے مسلسل بیانات جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، ترکی، اور دیگر ممالک نے مختلف سطحوں پر اس حل کی حمایت کی ہے، اگرچہ ان میں سے بعض نے اسرائیل سے تعلقات بھی بحال کیے ہیں جو فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی نظر میں قابلِ مذمت ہیں۔
ایران کا موقف مختلف ہے۔ وہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھتا ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔ ایران حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے اور دو قومی حل کے بجائے ایک مشترکہ ریاست کا تصور پیش کرتا ہے۔
عوامی سطح پر اسلامی دنیا میں فلسطین کے ساتھ ہمدردی گہری ہے۔ فلسطین کو مظلوم، مجبور اور اسلامی قبلہ اول کا امین سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیلی مظالم، مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی، اور بچوں و عورتوں کی شہادت نے عام مسلمان کا دل زخمی کیا ہے۔ ان جذبات کو مذہبی عقیدت، تاریخی روایت اور انسانی ہمدردی یکساں طور پر تقویت دیتے ہیں۔
حالاتِ حاضرہ میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں درجنوں نئی بستیوں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، جو دو ریاستی حل کی روح کے خلاف ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور انسانی حقوق کے ادارے بارہا ان آبادکاریوں کو بین الاقوامی قانون کے منافی قرار دے چکے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں معاشی بحران، بنیادی سہولیات کی کمی، اور اسرائیلی ناکہ بندی نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ 2023 ، 2024 ، 2025 میں غزہ پر مسلسل اسرائیلی حملوں نے ہزاروں جانیں لے لیں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کیا۔
ایسے ماحول میں دو قومی حل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام نہ صرف فلسطینیوں کے لیے انصاف ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے بھی لازم ہے۔ لیکن اس راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں:
اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی
امریکہ کی غیر متوازن حمایت
فلسطینی قیادت کا داخلی اختلاف
مسلم دنیا کا عملی اتحاد نہ ہونا
ان رکاوٹوں کے باوجود اسلامی دنیا ایک مؤثر حکمت عملی اختیار کر سکتی ہے:
1. سیاسی اتحاد: او آئی سی اور عرب لیگ کو صرف قراردادوں سے آگے بڑھ کر ایک متحرک سفارتی فرنٹ بنانا ہوگا۔ فلسطینی قیادت کو باہمی اتحاد پر قائل کیا جائے اور اسرائیل سے تعلقات کو دو قومی حل سے مشروط کیا جائے۔
2. اقتصادی و معاشی امداد: فلسطین کی مالی مدد، تعلیمی و طبی منصوبے، روزگار کی فراہمی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری جیسے اقدامات فلسطینی معاشرے کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
3. قانونی و اخلاقی دباؤ: اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کونسل میں مقدمات، بائیکاٹ کی تحریکیں، اور میڈیا کے ذریعے عوامی رائے کی تشکیل، اہم ہتھیار بن سکتے ہیں۔
عملی اقدامات میں سب سے مؤثر قدم ایک عالمی امن کانفرنس ہو سکتی ہے جو اقوام متحدہ کے طرز پر ہو، جس میں اسلامی دنیا، مغربی طاقتیں، اسرائیل، اور فلسطینی قیادت سب شرکت کریں اور ایک حتمی حل کے فریم ورک پر اتفاق کریں۔
بالآخر، اگرچہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن اس کے مستقل حل کے لیے "دو قومی حل" ہی ایک واحد حقیقت پسندانہ، قابلِ قبول، اور قابلِ عمل راستہ ہے۔ اسلامی دنیا کو اس حل کی حمایت صرف زبانی نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے کرنی ہوگی۔
فلسطینی ریاست کا قیام، اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت، بین الاقوامی برادری کا دباؤ، اور اسلامی دنیا کا اتحاد یہ سب مل کر ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جو صرف فلسطین و اسرائیل ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن، ترقی اور انصاف کی نوید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلام کا پیغام عدل، رحم، اور انسانی بھائی چارے پر مبنی ہے، اور یہی اصول اس تاریخی مسئلے کے حل کی کنجی بن سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے