ہوم << پاکستان کی تباہی میں’’مولویوں‘‘ کا کردار - کرم الہی

پاکستان کی تباہی میں’’مولویوں‘‘ کا کردار - کرم الہی

الہی کرم جی ہاں، پاکستان کو ملائوں نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے. اب تک جتنےگورنر جنرلز، صدور، وزرائےاعظم، گورنرز، وزرائےاعلی، وفاقی و صوبائی وزراء، ممبران پارلیمنٹ، سول اور ملٹری بیوروکریٹ اس ملک میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، وہ سب کے سب کٹر مولوی تھے. اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کوٹ پینٹ پہنتے تھے، شستہ انگریزی بولتے تھے، ’’کھاتے‘‘ اور ’’پیتے‘‘ تھے، اور اپنے داڑھی والے ملائوں کے منہ نہیں لگتے تھے. جی ہاں، آج تک ہر آئین کے تحت یہ لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص مقننہ کا ممبر نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہ ہو. کوئی فارغ العقل ہی ہوگا جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ 14 اگست 1947ء سے لے کر آج تک یہاں ہر سکول، ہسپتال، دفتر، بنک، دکان، جیل، الغرض سرکار اور ریاست دونوں کے محکموں اور شعبوں میں فیصلے کرنے والا ہر شخص ایک کلین شیو طالب یا مولوی ہی رہا ہے.
خود بابائے قوم بھی شیروانی اور قراقلی بلاوجہ نہیں پہنا کرتے تھے، وہ بھی دراصل ایک مدرسے (سندھ مدرسۃ الاسلام) کے طالب تھے. اسی طرح جیسا کہ ان کے قد کاٹھ سے ظاہر تھا، لیاقت علی خان بھی بغیر داڑھی کے ایک کٹر مولوی تھا، دو شادیاں تو رچائی تھیں ہی، اگر جوانی نہ ڈھلتی توچار شادیوں کی مولویانہ خواہش بھی پوری کرتا. اور ہاں صاحب، امیرالمئومنین غلام محمد کہیے، گورنر جنرل غلام محمد نہ کہیے. ہر وقت مراقبے کے ’’حال‘‘ میں رہنے والے مولوی غلام محمد کے بارے میں بے چارے قدرت اللہ شہاب ویسے دھوکہ کھا گئے کہ موصوف مخمور رہتے تھے. چوہدری محمد علی، محمد علی بوگرہ، یحیی خان اور ایوب خان کے ناموں پر تو غور کیجیے، (کام سے کسی کو کیا غرض)، سارے ناموں میں پیغمبروں کے نام آتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اندر سے سب مولوی ہی تھے. اور وہ جو جسٹس کارنیلیس، دراب پٹیل، جوگندر ناتھ منڈل، رانا چندر سنگھ اور رانا بھگوان داس وغیرہ جیسے ’’کافر‘‘ اعلی عہدوں تک پہنچے وہ تو بس اتفاقی حادثات تھے
اس ملک کے آئین میں اسلامی دفعات نہ ہوتیں تو یہاں فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی انتہا پسندی بھی نہ ہوتی، نہ حکومتوں کی ناکامی اور نہ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی خراب کاکردگی، نہ پچاس کی دہائی میں پختونستان کانعرہ درد سر بنتا، نہ سندھودیش کی تحریک جنم لیتی، نہ سانحہ مشرقی پاکستان ہوتا، نہ باربار بلوچستان اور کراچی میں آپریشن کرنا پڑتا، نہ کشمیرمیں پنجہ آزمائی ہوتی، نہ ایٹم بم بنانے کے لیے گھاس تک کھانے کے بھڑکیں ہوتیں، نہ افغانستان کے اندر پراکسی وار میں پھنستے، نہ ہندوستان کے ساتھ پےدرپے جنگیں لڑتے. یہ سب کچھ مولویوں ہی کا کیا دھرا ہے، کیونکہ مولوی ہی پالسی بناتے ہیں، وہی پالیسی پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں. مولوی ہی اس ملک کے اندر معاشی ناہمواریوں کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے ہی یہاں مختلف طبقات کے اندر احساس محرومی کو فروغ دیا، انہی مولویوں نے خود تو اقتدار کے مزے لوٹے اور عوام کو کبھی روٹی، کپڑا مکان، کبھی بنیادی جمہوریتوں، کبھی اسلامائزیشن، کبھی انلائٹنڈ ماڈریشن اور کبھی وار آن ٹیررکے چکر میں پھنسائے رکھا.
ان مولویوں کو جہاں بھی پایا جائے، پکڑا جائے، جکڑا جائے، اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے. ان کے اسلام کو ہمارا سلام، ہمیں تو بس سیکولر پاکستان چاہیے، بھلے اس کے لیے ہمیں بٹوارے کے بنیادوں کو ہی کیوں نہ ڈھانا پڑے، تاریخ کے پہیہ کو پھر سے کیوں نہ گھمانا پڑے، قوم کو مزید انتشار اور تقسیم کی طرف کیوں نہ دھکیلنا پڑے! آخر اس ملک کی 90 فیصد آبادی مذہب بیزار سیکولرسٹوں پر مشتمل ہے جو 1947ء سے لے کر اب تک اسلام اور مولوی کی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے. کہاں مرگئے عوامی جمہوریت کے دعویدار اور محافظ؟ .. اللہ حافظ!

Comments

Click here to post a comment