مسجد نبویﷺ درود و سلام کی عطر بیز مشکبو صدائوں سے مہک رہی تھی، دنیا بھر سے آئے ہوئے پروانے گنبد خضری کی ایک جھلک کے لیے دیوانہ وار کھچے چلے آئے تھے، شمع رسالتﷺ کے پروانوں کے چہروں سے عشق اور دردِ عشق، محبت اور سوزِ محبت رسولﷺ جھلک رہی تھی. سچ تو یہ ہے کہ خوش قسمت ہیں وہ مسلمان کہ سرتاج الانبیاءﷺ کا امتی ہونا ان کا مقدر ٹھہرا، محبوب خداﷺ کا امتی ہونا یقینا اِس کائنات کا سب سے بڑا انعام ہے، اِس اعزاز اور انعام کی دعا اور خواہش نبیوں پیغمبروں نے کی.
کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ محبت کیے جانے کے لائق صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہیں جو مقصود کائنات اور محمود ارض و سماوات ہیں، جن سے خود خالق ِ کائنات محبت فرماتے ہیں، اور خود ہی محبت نہیں کرتے بلکہ آقائے دوجہاںﷺ کی ذات کو معیار الفت اور مرکز عقیدت بنا دیا ہے، اور شان دیکھیں ہمارے پیارے نبی پاکﷺ کی کہ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو آپ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، جو تلاش حق اور قرب ِالٰہی کا مسافر ہے، اس وقت تک منزل نہیں پائے گا جب تک وہ محبوب خداﷺ کے عشق اور اطاعت میں ڈوب نہ جائے، جب تک گلے میں آمنہ کے لال کی غلامی کا طوق نہیں پڑے گا اُس وقت تک بارگاہِ الٰہی میں جا نے کی سعادت بھی نہیں ملے گی. ارشاد باری تعالی ہے: اے محبوبﷺ تم فرما دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جائو اللہ تم کو دوست رکھےگا۔ مشرکین مکہ کو یہ زعم تھا کہ ہم اللہ تعالی کے پیارے ہیں تو رب ذوالجلال نے سب کو حکم دیا کہ اگر تم واقعی میں خدا کی محبت رکھتے ہو تو پہلے میرے محبوبﷺ کی غلامی کرو، پھر یہ ہوگا کہ تم خدا کے چاہنے والے بنو اور خدا تمہارا چاہنے والا ہوگا.
کرہ ارض پر بسنے والے اربوں مسلمان اِس حقیقیت کا ادراک رکھتے ہیں کہ جب تک شاہِ مدینہﷺ کی غلامی کا طوق اُن کے گلے میں نہیں پڑے گا، جب تک وہ گنبد خضری کے مکین کے در پر سوالی بن کر نہیں آئیں گے، اُس وقت تک مالک کائنات کا پیمانہ رحمت بھی نہیں چھلکےگا، بقول حضرت رضا بریلویؒ
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ
عشق کے لیے صورت و سیرت کو بنیادی مقام حا صل ہے. بعض کے نزدیک عشق کا معیار حسن صورت ہے جبکہ سرور عالمﷺ کے ہاں تو عجب عالم ہے، آپﷺ کے حسن و جمال اور سیرت کا بزم جہاں میں کوئی بھی جواب یا مثال نہیں ہے. آپﷺ اپنی صورت و سیرت میں اپنی مثال آپ ہیں، سارے زمانے کے علوم، الفاظ اور ڈکشنریاں تنگ دامانی اور معذوری و تہی دامنی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں کہ اِس کائنات میں کوئی ایک بھی ایسی چیز پیدا نہیں کی گئی جسے آپﷺ کے حسن و خوبی کے نام سے تعبیر کیا جا سکے. سچ تو یہ ہے کہ ہر حسن و خوبی آپﷺ کے قدم ناز کا بوسہ لے کر اور خاک پا چوم کر ہی حسن و خو بی کے لفظ سے یاد کیے جانے کے لا ئق بنی ہے۔ آپﷺ کی نسبت سے ذرہ رشک آفتاب اور قطرہ غیرت ماہتاب بنتا ہے، آمنہ کے ننھے سردار، عبداللہ کی آنکھوں کے تا رے، عبدالمطلب اور ابوطالب کے لاڈلے سردار، بے کسوں بےآسروں کے آسرے، جن کی وجہ سے رب کعبہ نے دنیا کو سنوارا نکھارا، حضرت آمنہ ؓ کے لال کا چہرہ انور حسن و جمال اور خو بی و کمال کا مظہر ہے، آپﷺ کا حسن کامل ترین ہے، حسن یوسف آمنہ کے لالﷺ کے حسن کی ایک تابش ہے اور دنیا بھر کے حسین و جمیل آمنہ کے سردارﷺ کے حسن کی ایک ادنی جھلک ہیں. خالق کائنات نے اپنے پیارے محبوبﷺ کو وہ حسن و جمال عطا فرمایا، جس کی تعریف سے اقوام عالم کی تمام زبانیں اور ڈکشنریاں عاجز ہیں، ایسا روشن اور حسین و جمیل چہرہ کہ بس دیکھا ہی کیجیے، دیکھنے والوں نے اِس حسن و جمال کا پیکر کبھی نہ دیکھا، سننے والوں نے ایسا حسین نہ سنا، ایسا لا زوال بےنظیر حسین جس کے حسن و جمال پر دیکھنے والوں نے ایمان نچھاور کر دیے اور دل و جان فدا کر دیے. اللہ اللہ کشش اور خوبصورتی کا یہ عالم کہ ہوائوں فضائوں آسمان چاند ستاروں اور ملائکہ نے آپﷺ سا حسین کوئی نہ دیکھا، آپﷺ کا دلنواز شفیق تبسم پیاری پیاری ادائیں، سبحان اللہ ماشاء اللہ. ہیبت و جلال کا یہ عالم کہ شاہوں کے قدم لڑکھڑا جائیں، فرشتوں کے سردار جبرئیل امین مودب سر جھکائے کھڑے ہوں، حسن لازوال و بےمثال کا یہ عالم کہ بےاختیار یہ منہ سے نکل جائے کہ ایسا حسین و جمیل تو نہ اِن سے قبل دیکھا اور نہ ان کے بعد۔ حضرت ابونعیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف کو تمام انبیاء و مرسلین بلکہ تمام مخلوق سے زیا دہ حسن و جما ل دیا گیا تھا مگر ہمارے نبی اللہ کے حبیب ﷺ کو وہ حسن و جمال عطا ہوا کہ جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوا، حضرت یوسف کو حسن و جمال کا صرف ایک جز ملا تھا اور آپﷺ کو حسن ِکل دیا گیا۔حضرت رضا بریلوی ؒ فرماتے ہیں:
حسن یوسف پر کٹیں مصر میں انگشت زنان
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب
حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور سرور دوعالمﷺ کے وجود مبارک میں وحی الٰہی معجزات اور دیگر دلائل نبوت کا اثر و ظہور نہ بھی ہوتا تو آپﷺ کا چہرہ مبارک بھی دلیل نبوت کو کافی تھا. حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ صورت و سیرت میں باقی تمام لوگوں سے زیادہ حسین و جمیل تھے اور ہماری ماں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور خو ش رنگ تھے، جس کسی نے بھی آپﷺ کی توصیف کی، اس نے آپﷺ کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی، آپﷺ کے معطر پسینہ کی بوند آپﷺ کے چہرہ انور پر یوں لگتی تھی جیسے موتی۔ حضرت جابر بن سمر ہ ؓ فرماتے ہیں کہ چاندنی رات تھی اور حضورﷺ حلہ حمراء اوڑھے ہوئے لیٹے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضورﷺ کے چہرہ انور کو، اور بالاخر میرا فیصلہ یہ تھا کہ حضورﷺ چاند سے زیادہ حسین و خوبصورت ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد نے حضور اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا یارسول اللہﷺ یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر زنان مصر نے اپنے ہاتھ کا ٹ لیے تھے اور بعض لوگ اُن کو دیکھ کر مر جاتے تھے مگر آپﷺ کو دیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا، میرا جمال لوگوں کی آنکھوں سے اللہ نے غیرت کی وجہ سے چھپا رکھا ہے، اور اگر آشکار ہو جائے تو لوگوں کا حال اِس سے بھی زیادہ ہو جو یوسف ؑ کو دیکھ کر ہوا تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں میں نے حضورﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی کو بھی نہیں دیکھا، یوں معلوم ہوتا تھا کہ آفتاب آپﷺ کے چہرے پر چل رہا ہے۔
چاند منہ پہ تاباں درخشاں درود
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلا م
تبصرہ لکھیے