گزشتہ دنوں برادر وحید مراد صاحب سے مختصر سی گفتگو اس حوالے سے ہوئی کہ مقامی تحریک تانیثیت کی بابت ہمارے بڑے اہل علم کا رویہ کیا ہے اسی پس منظر میں کچھ معروضات پیش کرتا ہوں ، برادر وحید مراد خاص تانیثیت کے عنوان پر اتھارٹی شمار کیے جا سکتے ہیں امید ہے کہ وہ ان نکات کو آگے بڑھائیں گے یہاں پر صرف ابتدائی مقدمہ پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
برصغیر کے سیاسی چنڈوں خانوں میں ہونے والے تجزیے اور چائے کی پیالیوں میں اٹھنے والے انقلابت کی حقیقت سیاسیت کی غلام گردشوں میں چکرانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے یہاں پر ماضی قریب میں اور حال میں بہت سے نعرے استعمال ہوئے کہ جن کی حقیقت کچھ اور ہی تھی مگر افسوس کہ ان حقائق تک رسائی سے ہمارے علمی حلقے محروم رہے۔
کبھی ہم نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ سنا تو کبھی نظام مصطفیٰ ﷺ کی بات ہوئی کبھی ریاست مدینہ کی آواز بلند کی گئی تو کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کی ہوا چلی کبھی تبدیلی کا نعرہ بلند ہوا تو کبھی کسی لسانی علاقائی اور گروہی سلوگن کو استعمال کیا گیا لیکن ان کے پس ورق کوئی اور ہی کہانی چل رہی تھی ایسا ہی ایک نعرہ عورتوں کے حقوق کا بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ عورتوں کے حقوق کا نعرہ ہے یا پھر کہانی کچھ اور ہے ، عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف ہمیں سرمایہ داریت کی کوکھ سے جنم لینے والا سیکولر طبقہ دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب کمیونزم کی اور مارکسزم کی آواز بلند ہوتی دکھائی دیتی ہے ، مغرب کی تحریک تنویر کا وجود درحقیقت صنعتی انقلاب کے بعد ہی ظاہر ہوا اور پھر نئی منڈیوں کی تلاش میں یہ سرمایہ دار دنیا کو ایک بڑی نو آبادی بنانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ہاں ان کے یہاں بہت سے خوبصورت نعرے ضرور استعمال ہوتے رہے کبھی قومیت کا راگ الاپا گیا کبھی سیکولرزم کا ڈول ڈالا گیا کبھی ہیومنزم کی بات کی گئی اور کبھی فیمینزم یعنی تانیثیت کی آواز لگائی گئی اور آج یہ تحریک تانیثیت ایل جی بی ٹی کی شکل میں اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔
دوسری جانب مشرق سے اشتراکیت کی آواز لگی اداروں کو قومیانے کی بات ہوئی اسی کی کوکھ سے سخت ترین آمریتوں نے جنم لیا حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے وہ سپاہی کہ جو اکیڈمک میدانوں میں اشتراکیت کے خلاف سب سے بلند آواز تھے اور صف اول میں سینہ سپر تھے آج کسی انجینیر کے وکیل بنے ہوئے اس بات سے یکسر ناواقف ہیں کہ اشتراکیت جدید ہمارے سامنے کھڑی ہے۔
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ سرمایہ داریت اور اشتراکیت جیسے مخالف نظام سیکولرزم کے بفرزون میں کس طرح کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں شاید کہ وہ ایک بہت بڑے اور مشترک دشمن کو گرانے کیلئے یکجا ہو چکے ہیں اور کفر ملت واحد کی عملی تصویر پیش کررہے ہیں۔
تو جناب ہماری آج کی مقامی تانیثیت اور عورت مارچوں میں جب سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگتے ہیں اور جالب کی نظمیں بلند ہوتی ہیں انقلابی جارگنز اور نظریاتی سلوگنز استعامل ہوتے ہیں تو کیا ہمیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ نو اشتراکیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور فیمینمز کا نعرہ صرف ایک آڑ ہے۔
دوسری جانب تانیثیت سے ایل جی بی ٹی تک کیا ہیومنزم اور سیکولرزم کا راستہ نہیں بن رہا کیا ہمیں دکھائی نہیں دیتا کہ بات کہاں لے جائی جا رہی ہے۔
تو مجھے گلا اپنے ان اہل علم سے ہے کہ وہ شاید اسے عورتوں کے حقوق کی ایک فطری تحریک سمجھ کر ان سے ہم کلام ہیں کیا انہیں دکھائی نہیں دیتا کہ پس منظر کہانی کچھ اور ہے یہ مسئلہ عورتوں کے حقوق کا تو ہے ہی نہیں تو انہیں مخاطب کرکے میدان عمل میں نکلنے کیلئے دعوت دینے سے پہلے یہ تو بتائیے کہ کھیل کون سا کھیلا جا رہا ہے یہاں پر ہم اس تحریک کے پس منظر کو واضح کرتے ہیں تاکہ ہمارا قاری اس کی علمی و فکری بنیادوں کو سمجھ سکے۔
فیمینزم ایک اعتقادی بحث
آئیے ہم فیمینزم کی پیاز کی پرتیں اتارتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اندر سے کیا برآمد ہوتا ہے، آخر مسئلہ کیا ہے اور اس بحث کی بنیاد کس بات پر ہے ؟ فیمینزم ایک مخصوص اصطلاح ہے اسکی اپنی فلاسفی اپنی تاریخ اور اپنی حرکیات ہیں۔ فیمینزم وہ نہیں ہے کہ جو ہم بیان کریں بلکہ وہ ہے کہ جسے دنیا تسلیم کرتی ہے ممکن ہے کہ اس کی ابتداء عورت کے حقوق کی بات سے ہوئی ہو لیکن اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اس نے ایک مخصوص اعتقادی کیفیت اختیار کر لی ہے اور اب بات عورت کے حقوق سے بڑھ کر عورت کے غلبے تک آ گئی ہے جدید فیمینسٹ فلاسفی یہ کہتی ہے کہ مرد ایک شیطانی کردار ہے مرد جابر ہے مرد غاصب ہے مرد نے صدیوں عورت کو غلام بنائے رکھا اور اب مرد کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دنیا پر حکومت کرے۔
Radical feminists assert that society is a patriarchy in which the class of men is the oppressors of the class of women.
Echols, Alice (1989). Daring To Be Bad: Radical Feminism in America 1967-1975.Minneapolis: University of Minnesota Press.
"بنیاد پرست فیمینسٹ یہ تصور رکھتا ہے کہ مرد جاتی عورت جاتی پر ظلم کرنے والی ہے"
مزید بحث کچھ اس انداز میں آگے بڑھائی جاتی ہے
As radical feminist Ti-Grace Atkinson wrote in her foundational piece "Radical Feminism" (1969):
The first dichotomous division of this mass [mankind] is said to have been on the grounds of sex: male and female ... it was because half the human race bears the burden of the reproductive process and because man, the ‘rational’ animal, had the wit to take advantage of that, that the child bearers, or the 'beasts of burden,' were corralled into a political class: equivocating the biologically contingent burden into a political (or necessary) penalty, thereby modifying these individuals’ definition from the human to the functional, or animal.
Atkinson ,Ti-Grace (2000) [1969]. "Radical Feminism" In Crow, Barbara A. (ed.). Radical Feminism: A Documentary Reader. New York: New York University Press. pp. 82–89.
"اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مرد جاتی کی عورت جاتی پر ظلم کرنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنی پرانی تاریخ مرد و عورت کی ہے بحث یہ ہے چونکہ مرد و عورت کی حیاتیاتی ساخت میں فرق ہے عورت بچے پیدا کرتی ہے اور اس حیاتیاتی فرق کی وجہ سے مرد کو وہ موقع ملا کہ مرد معاشی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر عورتوں پر غلبہ پا لینے میں کامیاب ہوا"۔
پھر فیمینسٹ نظریہ مذہب سے بھی کچھ اتنا خوش دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس کے نزدیک مرد کو عورت پر غالب رکھنے میں ایک بہت بڑا کردار مذہب کا رہا ہے ایک فیمینسٹ نظریہ یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ چونکہ تمام تر مذاہب کے تخلیق کار مرد تھے اس لیے انہوں نے مذہب میں ایسے نظریات شامل رکھے کہ جن کو لے کر اعتقادی طور پر عورت کو دبایا جا سکے اور اس پر ایک غیر محسوس اخلاقی دباؤ قائم رکھا جا سکے۔
Feminists argue that philosophy of religion can hardly ignore questions of gender ideology when it’s very subject matter—religion—is riddled with misogyny and androcentrism. They point out that, historically, gender bias in religion has been neither accidental nor superficial. Elizabeth Johnson (1993) likens it to a buried continent whose subaqueous pull shaped all the visible landmass; androcentric bias has massively distorted every aspect of the terrain and rendered invisible, inconsequential, or nonexistent the experience and significance of half the human race. For philosophers studying the intellectual effects and belief systems of religions, the opportunity to critique and correct sexist and patriarchal constructions in this field is as ample as it is urgent, given the presence of gender ideology in all known religions. Not one of the religions of the world has been totally affirming of women’s personhood. Every one of them conforms to Heidi Hartmann’s definition of patriarchy as
Relations between men, which have a material base, and which, though hierarchical, establish or create interdependence and solidarity among men that enable them to dominate women. (1981: 14)
مفہوم
"یہاں سے ایک مقدمہ قائم ہوتا ہے مذہب اور فیمینزم میں بنیادی طور پر کیا اختلاف ہے ، وہ کون سی نظریاتی خلیج ہے کہ جو دونوں کے درمیان حائل ہے کیا یہ صرف تصور جہاں کا فرق ہے یا پھر یہ ایک خالص اعتقادی اختلاف ہے ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایک بنیادی اعتقادی اختلاف ہے سیکولرزم کی طرح فیمینزم بھی مذہب کو ایک الہامی معاملہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک مذہب ایک خالص انسانی کاوش ہے اس بھی آگے ان کا ماننا یہ ہے کہ مذہب ایک مردانہ ذہن کی اپچ ہے ان کے نزدیک تمام بڑے مذاہب مردوں سے شروع ہوئے ہیں وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے لے کر نبی کریم ﷺ تک مذہب کسی حقیقی خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے بلکہ اوپر کی عبارت میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ان مقدس شخصیات کو بھی بطور مرد دیکھتے ہیں"۔
مسلمانوں کے نزدیک کائنات کی کامل ترین شخصیت نبی کریم ﷺ کی ہے تو ایک فیمینسٹ ذہن یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ کام ترین شخصیت ایک مرد ہی کیوں !
ہمارے یہاں کا فیمینزم جو بھی تعبیر اختیار کرے جب آپ ان سے صاف اور واضح طور پر یہ سوال کریں کہ کیا ہم اور آپ یعنی مرد وعورت اپنا مقدمہ مذہب کے پاس لے جا سکتے ہیں یا پھر کیا ہمارے اس مناقشے میں مذہب فیصل بن سکتا ہے تو ان کا جواب نفی میں ہوگا کبھی وہ یہ کہیں گے کہ جناب ہم ایک مرد مولوی کی بات تسلیم نہیں کر سکتے ، اگر آپ مولوی کو درمیان سے ہٹا دیں تو پھرانکی بحث یہ ہوگی کہ تمام مفسر ، تمام محدث ،تمام فقیہ، تمام مورخ، مرد ہی تو تھے تو پھر ہم انکی بات کیسے تسلیم کرسکتے ہیں پھر اگر آپ قرآن کریم کو فیصل بنانے کی بات کریں تو دنکی دلیل یہ ہوگی کہ قرآن کریم کو جمع کرنے والے بھی تو مرد ہی تھے۔
سوال تو یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام آئمہ معصومین بھی مرد ہی تھے تو کیا ایک بنیاد پرست فیمینسٹ کو ان تمام مقدس شخصیات پر اعتماد ہوگا ؟
یہاں پر شاید ہمارے دیسی فیمینزم کی زبان خاموش ہو جائےکیونکہ وہ اتنی جلدی اتنے واضح انداز میں اپنے مقدمے کو خراب نہیں کر سکتے۔
لیکن کلاسیکی نظریہ فیمینزم اس سچ کو کیسے تسلیم کر لے کہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تمام پیمبر علیہم السلام مرد تھے ، اس تصور کو تسلیم کرلینے میں ہی نظریہ فیمینزم کی موت ہے وہ یہ کیسے مان لیں کہ خدا نے مرد کو ہی اپنا پیغام انسانیت تک پہنچانے کیلئے تخلیق کیا وہ یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ اس دنیا کی پیشوائیت اور ہدایت کے ساتے کی جانب راہنمائی مردوں کے ہاتھ میں رہی ، وہ یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ مرد ہی ان کے اور خدا کے درمیان واسطہ بنا ، غور کیجئے یہ حقوق کی گفتگو نہیں ہے یہ اعتقاد کی بحث ہے۔
تو ہمارا پہلا سوال پردے پر نہیں اختیار پر نہیں حقوق پر نہیں آزادی پر نہیں بلکہ اعتقاد پر ہونا چاہئے کہ کیا آپ کو ایک ایسا دین بطور فیصل تسلیم ہے کہ جو ایک مرد پر اتارا گیا اور کیا آپ اس مقدمے میں ایک مرد کو حکم بنانے کیلئے تیار ہیں۔
اسلامی فیمینزم
جس انداز میں دور استعمار سے متاثر شدہ اسلام نے مختلف اقسام کے ازم اسلامائز کیے ہیں ان میں سے ایک فیمینزم بھی ہے فیمینزم کی ابتداء پندرہویں صدی کے یورپ سے ہوتی ہے کہ جہاں خواتین کو کسی بھی قسم کے حقوق سے محروم رکھا گیا تھا اس دور میں خواتین کے ان حقوق کی آواز بلند کی گئی کہ جو نبی کریم ﷺ بہت پہلے مسلمان خواتین کو دے کر جا چکے تھا آہستہ آہستہ یہ تحریک ترقی پاتی گئی لیکن بعد ازاں بات خواتین کے حقوق سے بڑھ کو عورتیت یعنی وومن ازم (دنیا پر عورت کا غلبہ) یا amazonism تک چلی گئی فیمینزم کی تحریک میں کیا کچھ ارتقائی تبدیلیاں آئیں اور آج جب کہ مغرب جینڈر پالیٹکس سے نکل کر جینڈر فلوئیڈٹی یعنی لاجنسیت کی طرف جا رہا ہے تو شاید فیمینزم از خود اپنی اخلاقی بنیادیں کھو رہا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ آج ہم مغربی سیاسی معاشی اور معاشرتی طرز حیات کو تسلیم کرتے ہوئے انکے ہر ہر نظام و تحریک کو اسلامیت کا لبادہ پہنا رہے ہیں یہ امر ایک طرف تو شاید غلط فہمی تو دوسری طرف مذہب پر ہمارے عدم اعتماد کا نتیجہ ہے۔
اس سے پہلے کہ اس عنوان پر تفصیلی گفتگو کی جائے اپنے ایک قدیم مضمون کو یہاں منسلک کرتا ہوں تاکہ اس مقدمے کو سمجھنے میں آسانی رہے اس مضمون میں خواتین کے اسلامی حقوق کا ماضی قریب کے مغربی معاشروں کے عورت سے سلوک کا تقابل موجود ہے۔
قوانین اسلامی اور صنف نازک
اس مادی دنیا میں رہنے والے انسان جب ایک (society) کا حصہ بنتے ہیں اور جب وہ ایک بڑی (community) تشکیل دینے جاتے ہیں تو انکے درمیان اعتدال قائم رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان کی فطرت اسے مجادلے اور مناقشے پر ابھارتی ہے .
اس عدل کو قائم رکھنے کیلئے جو ادارہ تشکیل دیا جاتا ہے اسے عدالت کہا جاتا ہے یہ عدالت چند قوانین لاگو کرتی ہے کہ جن کی بنیاد پر معاشروں کے اندر ایک میزان قائم ہو سکے .
ریاستی قوانین کی بنیاد یہ تو انسانی عقل ہوتی ہے یا وحی الہی اور ہر دو کا مقصود دراصل معاشروں کے اندر امن کو قائم رکھنا ہوتا ہے .
مرد و عورت کسی بھی معاشرے کے دو فریق ہیں ، دو ایسے فریق کہ جنہیں اپنی بقاء کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ درکار ہے اگر یہ ساتھ موجود نہ ہو تو نسل انسانی معدوم ہو جاۓ .
مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے درمیان عدل قائم رکھا اہم ترین اور مشکل ترین امور میں سے اگر تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حوالے سے مذاہب عالم اور انسانی عقل مختلف قوانین بناتی رہی ہے .
جہاں تک معاملہ ہے عقل انسانی کا چونکہ ہمیشہ معاشرے (male dominant) رہے ہیں اسلئے قوانین کی تشکیل کیلئے عقل بھی بھی مردانہ استعمال ہوئی ہے اور مرد کا عورت کے حوالے سے متعصب ہونا امر محال نہیں ہے .
دوسری جانب جہاں تک مذھب کا معاملہ ہے اس کی نگاہ میں مرد و عورت یکساں حیثیت کے حامل ہیں اور جہاں کہیں بھی ان کے درمیان کوئی تفاوت دکھائی دیتا ہے وہ (administrative) .
گو کہ مذاہب بھی شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہے ہیں اور عقل انسانی کی زد پر رہے ہیں اسلئے ہمیں مذاہب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کہیں نہ کہیں عدم توازن دکھائی دیتا ہے .
انسانی عقل کے بناۓ ہوۓ قدیم تریم رومی قانون (Roman law) کا مطالعہ کیا جاۓ تو کچھ اس انداز کی تصویر سامنے آتی ہے .
1.The wife is the property of her husband and completely subjected to his disposition.
2. He could punish her in anyway, including killing her, or selling her as a slave (the last punishment was forbidden after 100 BC).
3. As far as family property is concerned the wife herself does not own anything. Everything she or her children inherit belongs to her husband, including also the dowry which she brought with her to her marriage.
4. Although the woman was considered a Roman citizen, she obtained her position only through her husband. Neither slaves nor women could carry their own name. Only men carried this distinct sign of their being a Roman citizen.
5.Moreover, the woman was excluded from all public functions and rights: “Women are excluded from all civil and public functions and therefore can neither be judges nor carry any civil authority, they cannot bring a court case, nor intercede for someone else nor act as mediators”.
6.The woman could not have charge of another person. “Tutela virile officium est” . She could not have patronage of her children and cousins (except in later Roman law).
7.Women could not function as witnesses, whether at the drawing up of a last will, or in any other form of law. “The woman is incapable of being a witness in any form of jurisprudence where witnesses are required”. Women were reckoned with minors, slaves, the dumb and criminals to be incapable of being witnesses.
8. Women could not start a court case without being represented by a man. Women cannot represent themselves in law “because of the infirmity of their sex and because of their ignorance about matters pertaining to public life”.
(H.HEUMANN and E.SECKEL, Handlexikon zu den Quellen des römischen Rechts, Graz 1958, pp. 246 and 265. L.WENGER, Institutes of the Roman Law of Civil Procedure, Littleton 1940; F.SCHULZ, Classical Roman Law, London 1951; M.KASER, Roman Private Law, Oxford 1965.)
1۔ عورت اپنے شرہر کی ملکیت شمار ہوگی۔
2۔شوہر اپنی بیوی کو کسی بھی انداز میں سزا دے سکتا ہے یہاں تک کہ اسے قتل کردے۔
3۔ عورت کی کوئی ذاتی ملکیت یا وہ کسی کی وارث نہیں ہوگی۔
4۔ عورت کی شہریت اس کے شوہر سے منسلک ہوگی اور اس کی کوئی ذاتی شناخت نہیں ہوگی۔
5۔عورت کو کسی بھی قسم کے معاشرتی ، معاشی ، سیاسی یا قانونی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔
6۔ عورت کسی بھی صورت میں کوئی خادمہ نہ رکھ سکے گی اس کا اپنی اولاد یا کسی پر سرے سے کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
7۔ کسی بھی قسم کے مقدمے میں عورت کی گواہی مقبول نہیں ہوگی۔
8۔ عورت کسی بھی مقدمے میں فریق نہیں بن سکے گی۔
اوپر پیش کی گئی فہرست ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں ان معاشروں میں خواتین کا حقیقی مقام معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں عقلی معاشرے کہا جاتا تھا اور جو ماضی قدیم میں تہذیبی و علمی مراکز تھے .
میگنا کارٹا کہ جسے دور جدید کے یورپی قوانین کی ماں قرار دیا جاتا ہے
(also Magna Charta, 1560s, Medieval Latin, literally "great charter" (of English personal and political liberty), attested in Anglo-Latin from 1279; obtained from King John, June 15, 1215.)
خواتین کے حوالے سے کیا کہتا ہے ملاحظہ کیجئے .
The word for woman, "femina", is actually only mentioned once and that was near the end, in Clause 54. This said "No one is to be arrested on the accusation of a woman for the death of anyone other than her husband" so it actually reduced and limited women's right to be heard as a witness in court. Talking on the BBC David Carpenter puts it like this "Women are being discriminated against in Magna Carta".
یعنی مغرب کے ابتدائی قانون میں بھی خواتین کو کوئی بنیادی قانونی حقوق حاصل نہیں تھے۔
اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور نا صرف بات کرتا ہے بلکہ انہیں قانونی حیثیت بھی دیتا ہے اور یہ قانونی حیثت انسانی عقل کے تابع نہیں ہوتی بلکہ کتاب الہی میں واضح ترین احکامات اتارے جاتے ہیں .
قرآن کریم کی چوتھی سوره سوره نساء مکمل طور پر خواتین سے منسوب ہے اور اس سوره کی ابتداء میں ہی قانون الہی اور تخلیق انسانی کے اعتبار سے خواتین کو مساوی درجہ دیا گیا ہے .
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْـهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْـهُمَا رِجَالًا كَثِيْـرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ الَّـذِىْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا O
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام تک امت کو اس جانب متوجہ کرتے رہے .
خطبہ حجة الوداع (charter of Islamic laws)
دفعہ : ۲۳ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام)کے تحت ان کے ستر تمہارے لیے حلال ہوئے۔
دفعہ : ۲۴ خبردار ! تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوکی کی وصیت ہے،کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔
گزشتہ دنوں ملک کے لبرل اور دینی طبقہ میں اس وقت میڈیا وار کا آغاز ہو گیا کہ جن پنجاب حکومت میں خواتین کے حقوق کیلئے ایک قانون پاس کر دیا .
یہاں کرنے کا سوال تو یہ تھا کہ کیا پہلے ہمارے قانون میں (women rights) اور
(Domestic violence) کے حوالے سے (clause) موجود ہے یا نہیں
اگر نہیں تو پچھلے ساٹھ سال سے آپ خواب غفلت میں کیوں مبتلاء تھے
اور اگر موجود ہے تو اس پر عمل در آمد کیوں نہ ہو سکا کہ جو اس جدید قانون کی ضرورت پیش آئی .
حیران کن امر یہ ہے کہ جس بات پر ہمارا لبرل طبقہ خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے اور دین طبقہ ہلچل مچا رہا ہے وہ ایک سیاسی شعبدے بازی سے زیادہ اور کچھ نہیں .
اس ملک کی اشرافیہ اپنی اصل میں نہ تو مذہبی ہے اور نہ ہی (secular) ہاں یہ ضرورت پڑنے پر ہر دو طبقات کو استعمال کرنے کے فن سے خوب واقف ہے .
جس ملک میں بنیادی انسانی حقوق (روٹی ، کپڑا ، مکان ) کے حوالے سے لوگ محروم ہوں وہاں مزید کیا گفتگو کی جاۓ ہاں ایسے سیاسی شعبدے توجہ کے حصول کیلئے ضرور مفید ہوتے ہیں .
ہر دو طبقات اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ دراصل ہونا کچھ بھی نہیں ہے لیکن باہمی مجادلے کی کیفیت ضرور پیدا ہو چکی ہے .
بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطے کی مسلم اکثریت اگر ٹھیٹ مذہبی نہیں تو لبرل بھی نہیں ماضی میں اکبر کا دین الہی دراصل (liberalism) کا ایک تجربہ تھا کہ جسے عوام نے مسترد کر دیا .
دوسری جانب اس خطے میں " داعش " والا شدت پسند اسلام بھی مقبول نہیں ہو سکتا یہاں اگر اسلام کے نفاذ کا کوئی راستہ ہے تو وہ براستہ دعوت تشکیل معاشرت کا راستہ ہے ناکہ ڈنڈے کے استعمال کا راستہ .
ایک جانب تو چدند عاقبت نا اندیش مولوی کفر کے فتاویٰ ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور فحاشی کے (certificate) تقسیم فرما رہے ہیں تو دوسری جانب لبرل حضرات سر عام مولویت کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں کوئی بھی معقول آدمی کہ جو خالص تحقیقی مزاج رکھتا ہو اس جنگ کا حصہ بننے سے خود کو محفوظ رکھے گا کہ ہر صورت میں عزت ہاتھ سے جانے کا اندیشہ ہے .
لیکن معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ مولویت سے آگے بڑھ کا قرآن و سنت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے جو اس ملک کی مسلم اکثریت کے حقوق اور اس ملک کے اسلامی آئین کی خلاف ورزی بھی ہے .
کبھی وراثت ، کبھی طلاق اور کبھی گواہی سے متعلق امور کو لے کر پھبتیاں کسی جا رہی ہیں .
یہاں معاملہ کم علمی سے بڑھ کر لا علمی (ignorance) کا ہے .
اسلام وراثت میں شخصی ملکیت کا قائل نہیں بلکہ حکم الہی سے اس کا تعین کر دیتا ہے تاکہ جھگڑے کا کوئی احتمال باقی نہ رہے بظاھر اسلامی قانون میں عورت کا حق وراثت مرد سے کم دکھائی دیتا ہے اور اس بات پر شدید واویلا کیا جاتا ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جاۓ تو ایسا معاملہ نہیں ہے ایک جانب تو عورت اپنے باپ کی وراثت میں حصے دار ہوتی ہے تو دوسری جانب اپنی شوہر کی وراثت میں بھی شریک ہوتی ہے اور یہاں اس کا حصہ مرد سے بڑھ جاتا ہے .
اسلام نے نفقے کی ذمے داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر رکھی ہے بلکہ معاملہ یہاں تک ہے کہ عورت اپنے ہی بچے کی دودھ پلائی کی اجرت طلب کر سکتی ہے اور اگر وہ بچے کو دودھ پلانا نہ چاہے تو مرد کو اس کا انتظام بھی کرنا پڑے گا معاشرے میں جاکر کر دنیا کمانا عورت کے ذمے نہیں اور گھر کے کاموں پر بھی مرد اسے شریعت کے اصول کے مطابق مجبور نہیں کر سکتا .
عورت پہلے اپنے باپ کی کفالت میں ہوتی ہے پھر اسکا نفقہ شہر کے ذمے ہوتا ہے اور پھر یہ خدمات اولاد کے حصے میں آتی ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے .
جہاں تک معاملہ گواہی کا ہے (Islamic jurisprudence) میں عورت کیلئے
(The extra cover for individual protection) ہے ، وہ معاشرہ کہ جہاں خواتین کی عام نقل و حرکت نہ تھی وہاں کسی ایک خاتون کی گواہی اسلئے ناکافی تصور نہیں کی جاتی تھی کہ انکے (status) میں فرق ہے بلکہ صرف اسلئے کہ فیصلہ کرتے وقت غلطی کا احتمال نہ رہے۔
دوسری جانب یہ ایک انتہائی شدید مغالطہ ہے کہ تمام معاملات میں عورت کی گواہی آدھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض معاملات میں گواہی صرف عورت کی ہی تسلیم کی جاتی ہے .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کی تنہا گواہی قبول کی جائے گی۔ اس لئے کہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث نے اُمِ یحییٰ بنت ابی اہاب سے نکاح کیا۔ تو سوداء لونڈی نے آ کر کہا کہ تم دونوں کو میں نے دودھ پلایا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُنہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کيف و قد قيل ففارقها و نکحت زوجا غيره.
’’نکاح کیسے (قائم رہ سکتا ہے) اور گواہی دیدی گئی ہے۔ تو عقبہ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور بنت ابی اہاب نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب إذا شهد شاهد، 2 : 934، رقم : ٢٤٩٧
(Islamic jurisprudence) میں جہاں (Lawmaking) ہو رہی ہوں وہاں ایسی امثال بھی ملتی ہیں کہ ایک خاتون کی راۓ پر قانون متعین ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم چالیس (40) اوقیہ سے زائد مہر مقرر نہ کرو اور جس نے زیادہ مقرر کیا تو وہ زائد بیت المال میں ڈالا جائےگا۔ تو ایک عورت نے کہا: اے امیرالمؤمنین آپ کو اس کا اختیار نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں؟ تو اس نے کہا: اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَاٰتَيْتُمْ اِحْدٰھُنَّ قِنْطَارًا (النساء، 4: 20)] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: عورت نے درست بات کہی اور مرد نے خطا کی‘‘۔
علي بن سلطان محمد القاري، مرقات المفاتيح، 6: 330، دار الکتب العلمية بيروت
ملاحظہ کیجئے خلیفہ وقت اقرار کر رہا ہے کہ " عورت نے درست بات کہی اور مرد نے خطا کی‘‘۔
اسلامی قانون سازی کے اولین دور میں حضرت عائشہ صدیقہ رض کا خاص مقام رہا ہے اور انکو یہ مقام حاصل تھا کہ انکے فتاویٰ پر عمل اور قانون سازی ہوتی تھی .
اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک خاندان ایک (unit) ہے اور اس کے کچھ انتظامی امور ہوتے ہیں اس یونٹ میں اسلام مرد کو امیر اور خاتون کو مشیر مقرر کرتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کہ جو وحی الہی کے تابع ہوتے ہیں خواتین کی مشاورت پر فیصلے فرماتے ہیں .
اس معاہدہ صلح (حدیبیہ ) کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیاکہ لوگ یہیں قربانی کریں؛ لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص آمادہ نہ ہوا ، اس لئے آپﷺ خیمہ میں تشریف لےگئے ، اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ جو ساتھ تھیں انہوں نے دیکھاکہ چہرہ مبارک پر رنج کے آثار ہیں، عرض کیا: کوئی بات ناگوار خاطر ہوئی ؟ فرمایا: جذباتی اعتبار سے سب ملول ہیں ،پئے در پئے واقعات نے صدمہ پہنچایا ہے ، حضرت اُم سلمہؓ نے فرمایا: بہتر ہے آپ ﷺ کسی سے کچھ نہ کہیے ، ان کے سامنے خود اپنا اونٹ نحر کر دیجئے اور حلق کروائیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ، آپﷺ نے اس مشورہ پر عمل کیا ، آپﷺ کو قربانی کرتا دیکھ کر سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا ،صلح کے بعد تین دن حدیبیہ میں قیام فرمایا ، پھر روانہ ہوئے تو سورۂ فتح کی یہ آیات نازل ہوئیں:
" بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ جو کچھ گناہ آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ معاف فرمائے ، اور تم پر اپنا احسان پورا کردے اور تم کو سیدھی راہ چلائے ، اور آپ کو ایک بہتر مدد دے "
سورۂ فتح :۲، ۳
یہ بھی ایک انتہائی غلط فہمی ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد کو دے کر عورت کو محروم کر دیا گیا ہے بلکہ اسے خلع اور بعض مواقع پر طلاق کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے .
حضرت ثابت بن قیس خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔
اسی طرح احناف کے ہاں تفویض طلاق کا مسلہ بھی معروف ہے .
یہ وہ تمام مسائل ہیں کہ جن پر اٹھاۓ جانے والے اشکالات کے جوابات علماء تفصیل سے دیتے چلے آۓ ہیں اور ان کا بار بار اعادہ کرنا وقت تضیع اوقات ہے لیکن کیا کیجیے کہ گھوم پھر کر وہی اشکالات بار بار سامنے لاۓ جاتے ہیں .
کیا اب وہ وقت نہیں آ گے کہ پاکستان کے حق دو طبقات اس اشرافیہ سے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرے کہ جو اس آئین کے مطابق انکی حق ہے ناکہ اس طرح لایعنی شوشے چھوڑتی رہے اور ہیم باہم الجھتے رہیں .
فیمینزم اور مسلم خواتین
مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم خواتین اور وہ بھی اسلام پسند خواتین کے سامنے علماء و فقہاء اور سلف صالحین کے وہ اقوال نہیں رکھ سکتے کہ جن میں انہیں اپنی معاشرتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کیلئے کہا گیا ہے یہ ممکن نہیں کیوں کہ ان مرد علماء و فقہاء اور سلف صالحین کی آراء اور فتویٰ میں انہیں مردانہ تعصب دکھائی دے گا مرد کی قوامیت کے حوالے سے انہیں وہ تعبیر درکار ہے کہ جو انکے دل سے قریب تر ہو۔
ایک طرف تو انکا پروفیشن اور اس پروفیشن کے واسطے سے دکھائی دیتی دین کی بہت بڑی خدمت اور دوسری طرف اپنی مصروفیات کو گھر اور بچوں اور شوہر کی اطاعت تک محدود کر دینا ایک طرف تو ایک وسیع و عریض سمندر تو دوسری طرف چاردیواری کی تنگنائے مجھے تو اڑنے کو آسمان چاہیے اور تیرنے کو پورا سمندر
آج کا ترانہ نسواں تو یہ ہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
اور ہمیں اس سب سے کوئی اختلاف نہیں ہمیں مسئلہ اس غلط فہی سے ہے کہ جو اسلام کے نام پر لگی ہے درحقیقت اسلامی فیمینزم کا نعرہ شاید ہمارے لیے نیا ہو مگر یہ آواز نئی نہیں ہے دامے درمے سخنے اس جانب بہت تیزی کے ساتھ سفر جاری ہے خاص کر تحریکیت سے متاثر خواتین کو اگلی صفوں میں جانا ہے انہیں تلوار بھی اٹھانی ہے انہیں سڑکوں پر بھی نکلنا ہے وہ زیادہ سے زیادہ وقت کہ جو وہ گھر سے باہر شہر سے باہر یا ملک سے باہر اور وہ بھی کسی شرعی محرم کے بغیر گزار سکتی ہیں دراصل وہ وقت ہی حاصل زندگی اور ایک بڑی خدمت اور بڑی قربانی ہے۔
وہ یوکے ہو کینیڈا ہو امریکہ ہو ہمیں تواتر سے یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ جناب فلاں جگہ فلاں خاتون نے مرد و عورت کی نماز کی امامت کروائی نماز جمعہ پڑھائی لو جی ہو گیا اسلام کا بول بالا کیا کہنے۔
یہاں گفتگو اس بات پر نہیں کہ عورت کو طلاق کا حق دیا جائے یا پھر مرد کی دوسری شادی پر بابندی لگا دی جائے اس حوالے سے تو قانون سازی ہو ہی رہی ہے یا ہو چکی اور ہماری بہت سے اسلام پسند خواتین اس بات سے متفق بھی ہیں یہاں گفتگو ہے کہ امامت و سیاست عدالت و معاشرت ہر ہر جگہ خواتین کی برابر کی نمائندگی کیوں موجود نہیں سوال تو یہ ہے کہ اگر ملک کی وزیر اعظم خاتون ہو سکتی ہے تو خلافت و امامت خواتین کو کیوں نہ ملی اور اگر خاتون فوج کے فلاں دستے کی نگران ہوسکتی ہیں تو تاریخ اسلامی میں کوئی خاتون سپہ سالار کیوں نہ ہوئیں تو کیا مذہب بھی فیمینزم کے خلاف تھا۔
سوال اٹھائے جارہے ہیں اور ہماری گفتگو لبرل یا جدت پسند طبقے سے نہیں ہے بلکہ اپنے ہی گھر میں موجود اسلام پسند خواتین سے ہے کہ جو اگلی صفوں میں جاکر قیادت کرنے کی خواہاں ہیں۔
Margot Badran is a historian of women and gender issues in Muslim societies.
اپنے ایک انٹرویو میں بیان کرتی ہیں ملاحظہ کیجیے
Q: Do you agree with the overall secular feminist critique of the notion of the complementarity of sex roles underlying general Muslim understandings? Might there not be some merit in this notion of gender complimentarity which Western and Western-influenced secular Muslim feminists in general do not acknowledge because of their particular way of conceiving gender equality or sameness?
A: Actually it was Islamic feminists who advanced a stringent critique of the notion of complementary gender roles in the family in favor of an egalitarian model of the family backed by strong arguments grounded in their re-readings of the Qur’an. Earlier, Muslim secular feminists—as was then common among feminists in the West—had argued for gender equality in society but accepted the idea of complimentary or unequal gender roles in the family. Muslim secular feminists were influenced by Islamic modernist thinking of the period around the turn of the 20th century which accepted a patriarchal model of the family, using Islamic modernist arguments to call simply for reforms within this model. Secular feminists, for example, demanded that legal controls to be put on men’s exercise of their power and privileges and insisted that men be legally bound to fulfill their end of the bargain and meet their responsibilities. They also demanded an extension of women’s rights in the context of family, especially in the area of divorce and child custody, and demanded controls on men’s practice of polygamy. It was the new interpretive work of the Islamic feminists that produced the idea of full gender equality within the context of the family—a gender equality that accounted for gender difference—as in keeping with Islam.
https://www.resetdoc.org/…/the-course-future-of-islamic…/
یہ تو صرف ایک اقتباس ہے جینڈر ایکویلٹی کی بحث اب مسلمان سیکولر فیمینسٹ گروہ سے نکل کر اسلامی فیمینسٹ گروہ تک آچکی ہے جنسی مساوات اور وہ بھی سیکولر معیار کے مطابق اب یہ مطالبہ ہمارے اپنے گھروں سے بلند کیا جا رہا ہے۔
مریم کوک اپنی کتاب
Creating Islamic Feminism through Literature: Women Claim Islam
میں یہ مقدمہ قائم کرتی دکھائی دیتی ہیں
" since the 1970s, of Islamic movements in many Muslim societies and as a search for ‘roots’ and religious and cultural ‘authenticity’ more generally. These women seek to claim their rights within a strictly Islamic paradigm. This means a re-reading of the corpus of Islamic texts, going straight to the Qur’an and to the Hadith, by-passing centuries of the accumulated tradition of Fiqh, much of which is dismissed as patriarchal aberration that is seen as having no legitimacy in Islam as such"
مفہوم
غور فرمائیے یہ وہی جدت پسند اسلامی مقدمہ ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ جناب ہم ازخود قرآن کریم سے معاملات کا حل دریافت کر سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو حدیث سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں ہمیں اس فقہ کی کیا ضرورت ہے کہ جو مردوں کی تخلیق کردہ ہے اور جو پدر سری معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے ہم اسلام کی وہ تعبیر کرنے جا رہے ہیں کہ جو عورتیت کے مقدمے کو درست طریقے پر بیان کر سکے۔
اب کی بار یہ آواز کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ ہمارے اپنے ہی گھر سے اٹھی ہے۔
عورت اور چار دیواری
گو کہ یہ بہت مشکل عنوان ہے اور اس حوالے سے گفتگو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے مگر فیمینزم یا اس سے بھی آگے عورتیت یعنی وومن ازم پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم کچھ مقدمات اپنے گھر میں ہی طے کر لیتے ہیں اس سے پہلے کہ ہم سیکولر لبرل طبقے سے گفتگو کریں ہماری گفتگو ہمارے اپنے ہی لوگوں سے ہونا ضروری ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم عورت کو چار دیواری تک محدود کر دینے کے قائل ہیں ؟
اس سے پہلے کہ یہ امر واضح کر دیا جائے کہ " چار دیواری " کیا چیز ہے اور آج کی دنیا میں اسے کیوں غیر انسانی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے چاہے یہ اختیاری ہی کیوں نہ ہو اگر کوئی عورت خود کو چار دیواری تک محدود کرنا چاہتی ہے تو آج کی دنیا اسے انسانیت کے چہرے پر ایک داغ تصور کرتی ہے اور اگر اسکا اظہار کوئی کر دے تو ہمارے معاشرے کے اسلام پسندوں کو اس پر شدید غصہ بھی آجاتا ہے۔
کیا میرا یہ جملہ آپ کو طنزیہ لگتا ہے اور اگر لگتا ہے تو میری جانب سے معذرت مگر کیا جس طبقے سے ہم نالاں ہیں عملی طور پر ہم خود بھی اسی کے موید نہیں ہیں اور اگر ہیں تو کیا ہمیں اس ناراضی کا کوئی حق حاصل ہے ؟
اس سے پہلے کہ گتھی اور الجھ جائے ہم اس پر گفتگو کر لیتے ہیں کہ اسلام چار دیواری سے کیا مراد لیتا ہے کیا چار دیواری ایک جیل خانہ ہے ایک ایسا جیل خانہ کہ جسکی چار دیواریں ہوں اور ان دیواروں میں ایک عورت کو چنوا دیا جائے جیسا کہ اکبر نے انار کلی کو چنوایا تھا ۔
مگر رکیے اکبر ایک لبرل سیکولر (مذہبی رویے کے حوالے سے) بادشاہ تھا اور انار کلی ایک تخیلاتی کردار نہ تو کوئی ایسی دیوار تھی اور نہ ہی کوئی ایسی انار کلی کہ جسے اس دیوار میں چنوا دیا گیا ہو ایسے ہی جب اسلام چار دیواری کی بات کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عورت چار دیواروں کے اندر مقید ہو جائے اور اسے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہ ہو نہ تو اسکا ثبوت اسلامی تاریخ سے ملتا ہے اور نہ ہے یہ اسلام کا منشا ہے۔
عورت تفریح طبع کیلئے روز مرہ کے معاملات کیلئے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے یا کسی بھی دوسری بنیادی انسانی ضرورت کے تحت اپنی چار دیواری سے نکل سکتی ہے اور اس سے اسلام کو کئی مسئلہ نہیں ہے۔
تو پھر چار دیواری سے کیا مراد ہے ؟
اسلام کے social fabric میں عورت کا ان معاشرتی معاملات میں شریک ہونا درست نہیں کہ جو مرد کا ذمہ ہیں۔
تاریخ اسلامی کا مطالعہ کیجئے خاص کر خشت اول کا آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا کہ کسی خاتوں صحابیہ رض کو کسی مسجد کا امام بنایا گیا ہو یا کسی علاقے کا امیر بنایا گیا ہو یا کسی عدالت میں جج لگایا گیا ہو یا کسی لشکر کا سپہ سالار بنایا گیا ہو یا پھر صفہ جیسا کوئی چبوترہ خواتین کیلئے بھی موجود ہو کہ جہاں پر ٹھہر کر وہ دین کی تعلیم حاصل کریں گو کہ خواتین پر بھی علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہے لیکن اپنا گھر بار چھوڑ کر علم حاصل کرنے کی کوئی اصل موجود نہیں۔
آج ہمارے یہاں ایک آواز لگائی جاتی ہے شانہ بشانہ یعنی وہ تمام معاشرتی امور کہ جن میں مرد شریک ہوتا ہے عورت بھی شریک ہو سکتی ہے عورت جج بن سکتی ہے عورت حاکم بن سکتی ہے عورت کسی بھی شعبے میں اسی طرح شریک ہو سکتی ہے جیساکہ مرد بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارے وہ اسلام پسند کہ جو عورت کے چاردیواری تک محدود کیے جانے کو داغ کہنے پر نالاں ہیں کیا وہ عورت کو کسی بھی اس پروفیشن سے روکنے کو قائل ہیں کہ جس میں مرد آگے بڑھتا ہے یا بڑھ سکتا ہے۔
اگر نہیں تو پھر بنیادی بحث کس بات کی ہے اور بنیادی مقدمہ کیا ہے ہم میں اور ان میں صرف پروفیشن کی نوعیت کا اختلاف تو ہو سکتا ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اب گفتگو کو اس سے ایک قدم اور آگے لے جاتے ہیں کیا کوئی اسلام پسند خاتون کہ جو اپنے شعبے (طب ، سیاست ، صحافت ، تعلیم) میں ترقی کر رہی ہیں کیا اپنے باپ یا اپنے شاوہر کے اس حق کو تسلیم کریں گی کہ وہ انہیں اس شعبے سے روک دیں کیا وہ اپنے پروفیشن کی قربانی دینے کا سوچ بھی سکتی ہیں کیا وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ انہیں اس طرح کی معاشرتی نقل و حرکت کی اجازت نہیں کہ جیسی مرد کو ہے ؟
یہ صرف چند سوال ہیں اس سے پہلے کہ ہم کسی فیمینسٹ یا کسی سیکولر لبرل سے گفتگو کریں کیا ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے ؟
" مرد جاتی کٹہرے میں "
Mankind on Trial
شاید آپ کو حیرت کو کہ میں نے مرد جاتی کیلئے Mankind کا لفظ کیوں استعمال کیا جبکہ یہ تو بنی نوع انسان کیلئے استعمال ہوتا ہے تو رکیے آج کے مذہب فیمینزم میں یہ ایک سیکسسٹ اصطلاح ہے آپ انسانیت کو مرد جاتی کے عنوان سے کیوں منسوب کرتے ہیں womankind کیوں نہیں کہتے.
ایک فیمینسٹ کا کہنا ہے
Over thirty years ago I stopped using the word, mankind. The word really bothered me. It is an archaic term, made up by men, to describe all humans on the planet. But the word itself only refers to half of the humans on the planet.
تیس ایک سال پہلے میں نے انسانیت کیلئے مین کائنڈ کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ دیا یہ لفظ ہمیشہ مجھے تکلیف دیتا تھا یہ ایک قدیم علامت تھی کہ جسے مرد نے تشکیل دیا تھا درحقیقت یہ ایک پدر سری معاشرے کی علامت تھی کہ جس میں مرد جاتی کو ہی تمام انسانیت کا نمائندہ سمجھا گیا لیکن درحقیقت یہ لفظ عورت جاتی کا نمائندہ کبھی نہیں رہا۔
مرد کہ جسے مذہب فیمینزم "شر" کا استعارہ سمجھتا ہے
All Men Are EVIL
" تمام مرد شیطان ہیں " کے نعرے کی گونج اب ہمارے دروازے پر دستک ہی نہیں دے رہی بلکہ دروازہ توڑ کر اندر آنے والی ہے معذت کے ساتھ " ہر وہ مرد کہ جسکی دو ٹانگوں کے درمیان آلہ تولید ہے وہ شیطان ہے "
بھلے وہ مذہبی مرد ہو یا پھر لبرل سیکولر مرد ہو تمام مرد کہ جن میں مردانہ اوصاف موجود ہیں وہ شیطان ہیں،
ریڈیکل فیمینمز ایک ایسی دنیا تخلیق کرتا ہے کہ جس میں کسی مرد کی ضرورت نہیں ہے یہ نظریہ صرف اذہان میں نہیں ہے بلکہ مین سٹریم میڈیا پر اسے پیش کیا جاتا رہا ہے۔
1999 میں ایک فلم بنی جس کا عنوان تھا
The Last Man on Planet Earth
زمین پر آخری آدمی ، یہ فلم یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے اس کی مختصر کہانی کچھ یوں ہے۔
During a war with Afghanistan, a weapon called the "Y-bomb" was used, which resulted in the deaths of 97% of the world's men. Feeling that they were better off without males, the women of Earth decided to outlaw men because they were too violent. 20 years later, scientist Hope Chase, fearing for the future of the species, conducts a cloning experiment to produce a new male of the species, whom she names Adam. When Adam reaches maturity, he soon finds himself on the run from the FBI, and hiding out with small rebel bands of the last remaining men.
افغان وار کے درمیان وائی بومب کے نام سے ایک بم استعمال کیا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں مردوں کی ٪97 آبادی موت کا شکار ہو جاتی ہے ، ریڈیکل فیمینسٹ یہ طے کر لیتے ہیں کہ اب یہ دنیا مردوں کے بغیر ہی بہتر ہے مرد کہ جو وحشی ہے درندہ ہے قتل و غارت گری پسند کرتا ہے جنسی بھیڑیا ہے اس کی موت میں ہی انسانیت کی بقاء ہے یعنی انسانیت صرف عورت جاتی ہے اور مرد جاتی کا مر جانا ہی انسانیت کو زندہ رکھ سکتا ہے ، مگر بیس ایک سال بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ انسانیت کی بقاء کیلئے مرد جاتی بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی عورت جاتی ہے کوئی بھی لیب مرد جاتی کے بغیر ایک مصنوعی نطفہ تخلیق کرنے میں ناکام رہی مرد کی اس ضرورت کو پورا کرنے کیلے کلوننگ کو استعمال کیا گیا اور اس کے ذریعے کی غیر متشدد مرد تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی ایک ایسا مرد کہ جو کسی بھی عورت کے ساتھ ایک پالتو جانور کے طور پر رہ سکے اور تخلیق کار نے اس مرد کا نام آدم رکھا ، علامات اور اشاروں پر غور کیجئے۔
یہ صرف ایک نظریہ نہیں ہے یا پھر یہ صرف ایک فلمی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے
Christina Hoff Sommers
Christina Marie Hoff Sommers is an American author and philosopher. Specializing in ethics, she is a resident scholar at the American Enterprise Institute. Sommers is known for her critique of contemporary feminism. Her work includes the books Who Stole Feminism? and The War Against Boys.
کرسٹینا میری ہوف سمرز ایک امریکی مصنف اور فلسفی ہیں ان کا میدن اخلاقیات ہے وہ امریکہ کی ایک بڑی یونیورسٹی میں تحقیق کے شعبے سے منسلک ہیں اور جدید فیمینزم کے ناقدین میں سے ہیں۔
کرسٹینا کی کتاب
The War Against Boys
خاصے کی چیز ہے اس کتاب میں فیمینزم کے اس ایجنڈے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح مرد جاتی کو مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی مردانگی سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مرد کو اس کے حقیقی کردار سے الگ کیا جا رہا ہے مرد کو احساس کمتری ہی نہیں بلکہ احساس شرمندگی میں مبتلاء کیا جا رہا ہے اور وہ ایک ایسا وقت چاہتے ہیں کہ جب مرد ، مرد ہی نہ رہے۔
تبصرہ لکھیے