سماج اور معاشرہ کا حسن اخلاقی اور سماجی پیمانوں کا احترام اور انسانیت کے وقار میں پوشیدہ ہے۔معاشرے میں پاۓ جانے والے بگاڑ اور خرابیوں سے زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔اصلاح معاشرہ اور پاکیزگی کی ضرورت تو ہر وقت درپیش رہتی ہے۔
اصلاح معاشرہ کی بنیادیں آپؐ کے لاۓ ہوۓ جامع نظام حیات سے مضبوط ہوتی ہے۔تعلیم اور دعوت کے عمل سے نہ صرف معاشرتی زندگی کی اساس مضبوط ہوتی ہے بلکہ معاشرتی زندگی کا حسن دوبالا ہوتا ہے اور معاشرہ پاکیزہ بھی ہوتا ہے۔تعلیم و تربیت سے اصلاحات کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔مساجد اور دینی مدارس معاشرے کی تعمیرنو اور پاکیزگی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔اس ضمن میں علماۓ کرام کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔
نوجوان نسل کی جسمانی، ذہنی، روحانی تربیت سے معاشرتی ماحول میں بہتری پیدا ہو تی ہے. بصورت بریں کے آسیب سے تو معاشرہ بد امنی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔معاشرے کا معیار انسانی رویوں اور کردار سے معلوم ہوتا ہے۔بہتر جسمانی اور ذہنی تربیت سے فکرو شعور کی کونپلیں پھوٹتی اور اور چاہت کے پھول کھلتے ہیں۔معاشرتی اور سماجی فہم و فراست کے فروغ سے زندگی کے سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔دیانتداری اور مثبت سوچ کے زاویوں میں وسعت پیدا ہونے سے زندگی کے رنگوں میں اور بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اسلوب زندگی کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔اس وقت انسانیت سکون کی تلاش میں ہے۔تاہم اسلامی تعلیمات اور عمل سے نہ صرف بے قراری کا طوفان تھم سکتا ہے بلکہ اطمینان کی دولت بھی ہاتھ آ سکتی ہے۔زندگی کے دھنک رنگوں میں حسنِ اخلاق کی رعناٸی کا اضافہ ہوتا ہے۔معاشرتی زندگی کا کاروان اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب جذبوں کی کاٸنات میں روانی ہو۔ایک دوسرے کے ساتھ احسن انداز سے پیش آنا ہی تو سماج کی زینت ہے۔
اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی کا انحصار مل جل کر رہنے اور درد و غم بانٹنے کا نام ہے۔معاشرتی رویوں میں دوریاں پیدا ہونے سے انسانی رشتوں پر کاری ضرب لگتی ہے اور انسانیت کا وقار مجروح ہوتا ہے۔اس بدنما داغ سے سماج کو محفوظ رکھنے کے لیے محبت اور چاہت کے اصولوں کو فروغ دینا ہے۔
تبصرہ لکھیے