مغلوں نے اپنے خزاں رسیدہ چمن کی آخری بہار کا لطف لال قلعہ کے در و دیوار پر اٹھایا تھا. یہ قلعہ صدیوں کے کرّوفر کے بعد ان کا آخری دفاعی مورچہ تھا. اب اس قلعے کی فصیلیں جشنِ آزادی و جمہور کے مواقع پر لمبی لمبی ہانکنے کے کام آتی ہیں. لال قلعہ سترھویں صدی عیسوی میں شاہجہاں نے تعمیر کروایا. پھر 1857ء کی ناکام یورش کے بعد انگریزوں نے لال قلعہ سے بہادر شاہ ظفر کو نکل جانے کا حکم دیا. غالب کی دلّی میں سعدی کے شیراز والی کیفیت پیدا ہوگئی.
آسماں را حق بود گر خوں ببارد برزمین
برزوالِ ملک مستعصم امیرالمومنین
اگرچہ بہادر شاہ ظفر کو معتصم باللّہ کی طرح محل سے کھینچ کر نہیں نکالا گیا لیکن غالب نے دلّی میں وہی کچھ دیکھا جو سعدی شیراز میں دیکھ چکے تھے. ادھر فیض صاحب کو ’’دعوی عظمت‘‘ ہے کہ میں نے بیروت میں وہی کچھ دیکھا ہے جو سعدی شیراز میں اور غالب نے دلّی میں دیکھا تھا. فیض کے مقام و مرتبہ سے کوئی انکار نہیں لیکن سعدی و غالب کے ساتھ یوں ’’ایڈجسٹ‘‘ ہونے کی کوشش فیض کی شخصیت شایانِ شان نہیں ہے.
لال قلعہ نظم و نسق کی ایک عمدہ مثال ہے، اور خوبصورت چہروں کی ایک بہترین آماجگاہ بھی. ایک جانب تختِ طاؤس کی پلیٹ لگی ہوئی ہے جہاں مغل فن تعمیر کے تمام تر نمونے موجود ہیں سوائے تختِ طائوس کے. اس جگہ کو انتظامیہ نے بلٹ پروف شیشوں سے گھیر دیا ہے کہ کوئی شب کی تاریکی میں تختِ طاؤس واپس نہ لاکر رکھ دے.
تاریخ شاہد ہے کہ مغلوں کے بعد سے آج تک جو بھی دلّی آیا، وہ آگ اور خون کی ہولی کھیلتا ہوا آیا ہے. وہ چاہے نادر شاہ درّانی ہو یا برٹش سامراج یا نریندر مودی. ہر کسی نے لال قلعہ کی راہ میں آنے والی کھائیوں کو بےگناہوں اور مظلوموں کی لاشوں سے بھرا ہے. اس لیے لال قلعہ کی دیواریں آج بھی خون کے آنسو روتی ہیں.
لال قلعہ میں ایک میوزیم بھی ہے جس میں شاہانِ سلف کی روزمرّہ ضروریات کے ساز و سامان محفوظ ہیں. فارسی زبان میں قصیدے، شاہی مہر کے نمونے، فرامین شاہی اور اشیائے عشرت بشمول بہادر شاہ ظفر کا حقّہ شریف محفوظ ہے. میوزیم میں ایک شفاف شیشے کا اندازہ نہ ہوسکا جس سے ٹکرانے کے بعد فدوی اور شیشہ دونوں شاہانِ سلف میں شامل ہونے سے بال بال بچے. میوزیم میں ہی مبارک بدری کی فون کال موصول ہوئی. وہ کالِ مبارک بھی درحقیقت میوزیم میں محفوظ کیے جانے کی قابل تھی جو آئندہ دو دنوں کے لیے دلّی میں ہمارے لیے بےپناہ محبتوں کی نقیب تھی. مبارک نے کہا کہ وہ لال قلعہ کے باہر ہمارے منتظر ہیں. اسی اثنا میں میوزیم کی لائٹیں بند کردی گئیں اور لال قلعہ کے میوزیم میں صدیوں پرانی فضا مسلّط ہوگئی.
لال قلعہ کے جنوب مشرقی کونے میں شاہی محل ہے. اس محل سے محفلِ راگ و رنگ کی آواز آرہی تھی. محمد شاہ رنگیلا کی رنگینیوں پر مبنی ایک آڈیو پلے چل رہا تھا. رقّاصہ کی پازیب کی چھن چھن کے زیرِسایہ محمد شاہ رنگیلا بادہ نوشی کررہا ہے، شمال سے گھوڑے کی ٹاپ کی آواز آتی ہے جو بتدریج تیز ہوئی جاتی ہے اور شاہی محل کے قریب جا کر تھم جاتی ہے. گھوڑے کی ٹاپ سن کر رقاصہ کے پیر رک جاتے ہیں اور پازیب کی جھنکار بند ہوجاتی ہے. آنے والا سوار محاذِ جنگ کا ایک قاصد ہے اور محمد شاہ رنگیلا کو یہ خبر دینے آیا ہے کہ نادر شاہ درّانی کا لشکر پانی پت سے آگے بڑھ گیا ہے. محمد شاہ رنگیلا ایک مخمور قہقہہ لگا کر تکبرانہ انداز میں’’ہنوز دلّی دور است‘‘ کا نعرہء مستانہ بلند کرتا ہے. قاصد واپس ہوتا ہے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جاتی ہے. ادھر شاہی محل میں بزم رقص و سرور دوبارہ شباب پر آجاتی ہے. بالآخر محمد شاہ رنگیلا نادر شاہ درّانی کا مقابلہ نہ کرسکا اور اسے لال قلعے میں لے آیا. نادر شاہ درّانی لال قلعے میں آتے ہی تختِ طاؤس سے ایسا چپکا کہ اسے چھوڑتا ہی نہیں تھا. معترضین کو درّے لگوائے (درّانی جو تھا) یہاں تک کہ جب عازمِ ایران ہوا تو تختِ طاؤس بھی زادِ راہ میں شامل کرلیا.
لال قلعہ میں ایک شب نادر شاہ درّانی کو اطلاع ملی کہ محمد شاہ رنگیلا شاہی خزانے کی جانب گیا ہے. نادر شاہ فوراً وہاں پہنچا تو دیکھا کہ رنگیلا اپنی پگڑی میں کچھ چھپا رہا ہے. نادر شاہ اس سے محبّت سے ملا اور اسے اپنا پگڑی بدل بھائی قرار دیتے ہوئے اس سے اپنی پگڑی بدل لی. یہ الگ بات ہے کہ اس وقت نادر شاہ کی پگڑی مسکین کا کشکول بنی ہوئی تھی اور رنگیلے نے اپنی پگڑی میں کوہِ نور ہیرا چھپایا ہوا تھا.
صدیوں کا سفر منٹوں میں طے ہوتا ہے اور لال قلعہ کی سطوتِ شاہی پر پھر حزن تازہ کی یلغار ہوتی ہے. انگریز دستہ غدر کو کچل کر لال قلعہ میں داخل ہو رہا ہے اور بہادر شاہ ظفر اس خادم کا منتظر ہے جو اس کے پیروں میں جوتیاں ڈال دے. اکثر لوگوں نے بادشاہ کے اس انتظار کو اس کی عیش کوشی سے تعبیر کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بادشاہ کی عمر چورانوے سال تھی، کچھ عجب نہیں کہ چورانوے سالہ بزرگ اپنے پیروں میں جوتیاں ڈالنے کے لیے کسی کا محتاج ہو. میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو استعمار غدر کی خونی یورش سہہ گیا، 1947ء میں ہم نے اس کے لیے ایسی کون سی مشکلیں کھڑی کردی تھیں جس کے سبب وہ ہندوستان چھوڑ گیا.
لال قلعہ کے باہر مبارک بدری کو اپنا منتظر پایا. شرع کے پاسدار اس نوجوان کو دیکھ کر دل میں ہلکا سا تاثر یہ آیا کہ ’’بھئی ہم تو برے پھنسے.‘‘ لیکن مبارک خلافِ توقع باغ و بہار طبیعت کے ثابت ہوئے جو شریفوں میں شریف اور خرابوں میں خراب بن جاتے ہیں. مبارک کی معیّت میں مرقدِ آزاد کا رخ کیا، جو ہمارے پہنچنے پر بند ہوچکا تھا. صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک وہ عوام کے لیے کھلا ہوتا ہے، اس کے بعد مولانا کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے. یہ ٹائمنگ مولانا کے مزاج کے عین مطابق ہے کہ وہ صبح کی چائے اور شام کی شراب سے ہمیشہ تنہا لطف اندوز ہونا پسند کرتے تھے. مزار کے مشرقی سرے پر لگائی گئی لوہے کی جالیاں اتنی بلند نہیں تھیں جسے ہم پھلانگ نہیں سکتے تھے، لیکن مولانا کے استغراق میں اس گستاخی کی اجازت دل نے نہ دی لہٰذا ہم مولانا سے دوسرے دن کی ’’اپوائنمنٹ‘‘ لے کر جامع مسجد کے بابِ شاہجہاں کی سیڑھیاں چڑھنے لگے. جامع مسجد سے سرسری گزر کے باب عبداللہ سے باہر نکل گئے اور اب ہمارا رخ مٹیا محل سے ہوتی ہوئی پرانی دلّی کی تنگ گلیوں کی جانب تھا. وہ علاقہ جو مبارک کے بقول حسن سے مالا مال ہے. وہ علاقہ جہاں پرویز مشرف نے اپنے بچپن کے ایّام گزارے تھے. وہ علاقہ جہاں کی خاک سے اٹھنے والا ایک نوجوان شاہ رخ خان بنا.
مغرب پرانی دلّی کی ہی ایک مسجد میں ادا کی اور چاندنی چوک کی جانب آئے. چاندنی چوک میں مایوسی ہوئی کیونکہ وہاں لذتِ کام دہن کی کوئی سبیل نظر نہ آئی. جب پیٹ میں آگ لگی ہو تو عقل و دانش کے سارے فلسفے بھیک مانگنے لگتے ہیں. ان فلسفوں کو گداگری کراتے ہوئے جامع مسجد فتح پوری تک پہنچ گئے. عشاء کی اذان ہونے لگی. میری خواہش تھی کہ دلّی میں کم از کم ایک وقت کی نماز تو شاہی جامع مسجد میں ادا کرسکوں، چنانچہ آٹو سے جامع مسجد کے لیے روانہ ہوگئے. آٹو ڈرائیور بھی بھلا مانس تھا، اسے پتہ چلا کہ عشاء جامع مسجد میں پڑھنے کا ارادہ ہے تو اس نے وہ مشتاقی دکھائی کہ نماز سے عین قبل بابِ عبداللہ پر چھوڑ دیا. جامع مسجد کے حوض کے ایک کونے میں سلاخوں کا بنا ایک بکس ہے. شاہجہاں نے خواب دیکھا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ پر وضو کررہے تھے، چنانچہ اس جگہ کو محفوظ کردیا گیا.
بعد نماز و طعام جامع مسجد کی انہی سیڑھیوں کا رخ کیا جہاں سے کبھی آزاد نے پاکستان کی جانب ہجرت کرتے مسلمانوں کو للکارا تھا. ان گندی سیڑھیوں کے لیے میں اپنے شہر میں برپا ’’جشنِ منور رانا‘‘ کی مخملی کرسیاں چھوڑ آیا تھا جس میں منور خود شریک تھے. مبارک کے بقول منور رانا جذبات کا دکاندار ہے. اس کی غزلوں میں تغزّل نہیں ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم اخبار پڑھ رہے ہیں جو ردیف قافیہ سے آراستہ پیراستہ ہیں. منور رانا کی شاعری کی اس شاندار تفسیر پر دل چاہا کہ اٹھ کر مبارک کا منہ چوم لوں لیکن یہ.حسرت دل میں ہی رہ گئی. واقعتاً یہی ہے کہ خمار و جگر کے بعد غزل کا حسن عالمِ نزع میں ہے.
رات بوجھل ہونے لگی تھی. ہماری بدقسمتی کہیے کہ ہم نے کمرہ جامع مسجد سے کوسوں دور حضرت نظام الدین کے علاقے میں لیا تھا. جامع مسجد سے قریب ہوتے تو انہی سیڑھیوں پر شب گزار دیتے.
(جاری ہے.)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
اللّٰہ کرے زور قلم اور زیادہ.
اسی چیز کا آرزومند تھا کہ کب آپ کی انگلی پکڑ کر ان مقامات کی سیر کرونگا اور آپ مختصر الفاظ میں ایک ایک منظر کےبارے میں بتائیں گے.
[…] سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]