ہوم << بلوچستان کی محرومیوں کی داستان - احسان کوہاٹی

بلوچستان کی محرومیوں کی داستان - احسان کوہاٹی

احسان کوہاٹی ق مجھے محرومیوں اور خودداریوں کو مجسم کرنے کا اختیار ملے تو میرے ہاتھوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بلوچستان کا بلوچ تخلیق پائے. جس نے غربت، افلاس اور محرومیوں کو دیکھنا ہو تو وہ کوئٹہ سے نکل کر کسی بھی بلوچ یا پشتون بیلٹ میں چلا جائے، وہاں آپ ایسی مخلوق پائیں گے جنھیں’’اسلام آباد‘‘ کے تئیں پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہے نہ کھانے کے لیے اناج کی، سڑکوں پر سفر سے ان کی عمریں گھٹ سکتی ہیں، اس لیے وہاں راہیں ہموار کرنے اور تارکول بیلنے والے رولر نہیں بھیجے جاتے، بجلی گیس پانی چونکہ انسانوں کی بنیادی ضروررتیں ہیں اس لیے بلوچوں کو ان کی ضرورت نہیں، تعلیم تو ہے ہی وقت کا ضیاع سو وہاں اسکول کالج کیسے، اور اگر کہیں ہوں بھی تو وہ اسی حال میں ملیں گے جس حال میں بلوچستان ہے۔ اب رہ گئی صحت کی تو یہ ہمارے جنجال ہیں، پہاڑوں، بیابانوں اور دشت میں رہنے والے کیوں بیمار پڑنے لگے، ان کا لائف اسٹائل ایسا ہے کہ وہ فزیکلی بڑے ہی فٹ ہوتے ہیں۔ اور ہاں میکڈونلڈ، کے ایف سی، برگر کنگ، پیزا ہٹ کے جنک فوڈز تو ہمارے بچے کھاتے ہیں، اس سے ہمارے شہزادوں کا وزن بڑھتا ہے، اس لیے جمنازیم، کھیلوں کے میدان اور پارکیں بھی ادھر ہی ہونی چاہییں، ادھر ان کا کیا مصرف؟
اس لیے جب 2008ء اکتوبر میں زلزلے کے بعد زیارت جانا ہوا تو قائداعظم کے صنوبر کی وادی کو تقریبا ویسا ہی پایا جیسا ہمارے قائداعظم چھوڑ کر گئے تھے، زیارت بلوچستان کا ایک بڑا ضلع ہے لیکن یہاں سہولیات کا حال یہ تھا کہ پورے زیارت میں ایک ایکسرے مشین نہیں تھی، لوگ زلزلے میں زخمی ہونے والوں کو چارپائیوں پر ڈالے گھنٹوں کی مسافت کے بعد پہاڑوں سے نیچے اترتے تو انہیں ایکسرے کرانے کے لیے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر کوئٹہ روانہ کر دیا جاتا، میرے لیے یہ صورتحال بڑی عجیب اور حیران کن تھی. زیارت سے واپسی پر جب کوئٹہ پریس کلب میں امدادی سرگرمیوں کے لیے صدر آصف علی زرداری کے کوآرڈینیٹر ہمایوں کرد سے نیوز کانفرنس میں آمنا سامنا ہوا، وہ امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دے کر خاموش ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کی سب باتیں اپنی جگہ جناب! لیکن میں نے تو دیکھا ہے کہ زیارت میں ایکسر ے مشین تک نہیں، آپریشن تھیٹر کی عیاشی کا ذکر تو جانے دیجیے۔ میں نے ذرا جذباتی انداز میں سوال پوچھ لیا تھا جس کا برا منانے کے بجائے ہمایوں کرد صاحب نے جو کہا اس کی تصدیق 2013ء کے زلزلے میں ہوئی۔
ہمایوں کرد نے کہا تھا کہ میرے بھائی آپ ایک زیارت کی بات کر رہے ہیں، یہاں تو پورے بلوچستان کا یہی حال ہے۔ اور اس کی گواہی2013ء میں زمین بوس ہونے والا آواران دے رہا تھا،احسان کوہاٹی وہاں بھی ’’رہے نام اللہ‘‘ والی صورتحال تھی، سرکار نے کوئٹہ کراچی روڈ سے آواران تک ایک سڑک کھینچ کر بس اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کر دی تھی، اگر چہ کہ یہاں ٹیلی فون ایکسچینج، اسپتال، کالج اور اسکول بھی تھے لیکن ٹیلی فون ایکسچینج کے علاوہ سب غیر فعال تھے، آواران سے آگے کا حال گویا ایسا تھا کہ سرکار کہہ رہی ہو، اپنی ذمہ داری پر جان و تن کا رشتہ استوار رکھ سکتے ہیں ۔
وفاق کے اس ’’محبت بھرے‘‘ رویے کا ہی نتیجہ تھا کہ نوکیلے اور بے آب وگیاہ پہاڑوں کو عبور کرتے ہی شہر کے درودیوار مرگ بر پاکستان کے نعروں سے استقبال کرتے ملے، جگہ جگہ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے نعرے ان کی موجودگی کااحساس دلاتے ملے، پورے شہر میں کہیں قومی پرچم دکھائی نہیں دیا اور دکھائی دیا بھی تو بندوقوں کی حفاظت میں ان فوجی جیپوں پر جو وقتا فوقتا کچے روڈ پر گرد و غبار کا بادل اڑاتے چلی جاتی تھیں، اس گرد و غبار میں قومی پرچم بھی ناراض ناراض سا لگا، بلوچوں سے نہیں، بلوچوں کو اس حال تک پہنچانے والے ضمیرفروشوں سے۔
اچھا! بلوچستان کو اس حال تک صرف سرسبز اسلام آباد نے اکیلے نہیں پہنچایا، اس میں برابر کا ہاتھ ان بلوچ سرداروں کا بھی ہے جن پر ہمارے یہ سادہ لوح بلوچ جاں فدا کرتے ہیں، جن کے پاس اپنے تنازعات لے کر جاتے ہیں، جھک کر ملتے ہیں، تقریبات میں دس گز کی دستار باندھتے ہیں اور کبھی سوال نہیں اٹھاتے کہ آپ کے بچے خاران، قلات، لسبیلہ کے اسکولوں کے بجائے آکسفورڈ میں کیوں پڑھنے جاتے ہیں، آپ رہائش کراچی کے ڈیفنس کی کوٹھی میں رکھتے ہیں اور سرداری ہم پر چلاتے ہیں۔ ان کا قبائلی نظام ان کی زبان کو اس قسم کے سوالوں کا بوجھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا، یہ سردار اپنے لوگوں سے کتنے مخلص ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایک دینی فلاحی ادارے کے سربراہ سے ملاقات میں ہوا، وہ بلوچستان اور سندھ کی روٹھی زمین سے سینکڑوں فٹ گہرے کنویں کھدوا کر پیاسے لبوں کو سیراب کرتے ہیں. ایک دن ملے بلوچستان کا ذکر چھڑا، وہاں کی غربت افلاس اور باغی رویوں کی بات ہوئی تو کہنے لگے’’سیلانی صاحب! بلوچستان کا مسئلہ معاشی ہے سیاسی نہیں، بےچارے بلوچ کو تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل رہی، آپ ان کے لیے زندگی آسان کریں اور پھرساری زندگی ان کی محبتیں پائیں۔ لیکن مسئلہ ایک اور ہے ہم انہیں ان کے سرداروں کے ذریعے فیض پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ فیض ان کے قلعہ نما کوٹھیوں سے باہر نہیں نکل پاتا، وہیں قید ہو کر افزائش نسل کرتا رہتا ہے، ایک روز اکبر بگٹی صاحب کے ایک صاحبزادے کا میرے پاس فون آیا، کہنے لگے مولانا صاحب! میرے علاقے میں ہیپاٹائیٹس کی ویکسی نیشن تو کروا دیں، میں نے کہا بسم اللہ جی بتائیں کب اور کہاں جانا ہے، جواب میں انہوں نے جو علاقہ بتایا وہ ڈیرہ بگٹی یا بلوچستان کا کوئی دورافتادہ علاقہ نہیں بلکہ ان کی تیسری بیگم کے میکے فیصل آباد کا تھا۔‘‘

Comments

Click here to post a comment