اس لیے جب 2008ء اکتوبر میں زلزلے کے بعد زیارت جانا ہوا تو قائداعظم کے صنوبر کی وادی کو تقریبا ویسا ہی پایا جیسا ہمارے قائداعظم چھوڑ کر گئے تھے، زیارت بلوچستان کا ایک بڑا ضلع ہے لیکن یہاں سہولیات کا حال یہ تھا کہ پورے زیارت میں ایک ایکسرے مشین نہیں تھی، لوگ زلزلے میں زخمی ہونے والوں کو چارپائیوں پر ڈالے گھنٹوں کی مسافت کے بعد پہاڑوں سے نیچے اترتے تو انہیں ایکسرے کرانے کے لیے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر کوئٹہ روانہ کر دیا جاتا، میرے لیے یہ صورتحال بڑی عجیب اور حیران کن تھی. زیارت سے واپسی پر جب کوئٹہ پریس کلب میں امدادی سرگرمیوں کے لیے صدر آصف علی زرداری کے کوآرڈینیٹر ہمایوں کرد سے نیوز کانفرنس میں آمنا سامنا ہوا، وہ امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دے کر خاموش ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کی سب باتیں اپنی جگہ جناب! لیکن میں نے تو دیکھا ہے کہ زیارت میں ایکسر ے مشین تک نہیں، آپریشن تھیٹر کی عیاشی کا ذکر تو جانے دیجیے۔ میں نے ذرا جذباتی انداز میں سوال پوچھ لیا تھا جس کا برا منانے کے بجائے ہمایوں کرد صاحب نے جو کہا اس کی تصدیق 2013ء کے زلزلے میں ہوئی۔
ہمایوں کرد نے کہا تھا کہ میرے بھائی آپ ایک زیارت کی بات کر رہے ہیں، یہاں تو پورے بلوچستان کا یہی حال ہے۔ اور اس کی گواہی2013ء میں زمین بوس ہونے والا آواران دے رہا تھا،
وفاق کے اس ’’محبت بھرے‘‘ رویے کا ہی نتیجہ تھا کہ نوکیلے اور بے آب وگیاہ پہاڑوں کو عبور کرتے ہی شہر کے درودیوار مرگ بر پاکستان کے نعروں سے استقبال کرتے ملے، جگہ جگہ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے نعرے ان کی موجودگی کااحساس دلاتے ملے، پورے شہر میں کہیں قومی پرچم دکھائی نہیں دیا اور دکھائی دیا بھی تو بندوقوں کی حفاظت میں ان فوجی جیپوں پر جو وقتا فوقتا کچے روڈ پر گرد و غبار کا بادل اڑاتے چلی جاتی تھیں، اس گرد و غبار میں قومی پرچم بھی ناراض ناراض سا لگا، بلوچوں سے نہیں، بلوچوں کو اس حال تک پہنچانے والے ضمیرفروشوں سے۔
اچھا! بلوچستان کو اس حال تک صرف سرسبز اسلام آباد نے اکیلے نہیں پہنچایا، اس میں برابر کا ہاتھ ان بلوچ سرداروں کا بھی ہے جن پر ہمارے یہ سادہ لوح بلوچ جاں فدا کرتے ہیں، جن کے پاس اپنے تنازعات لے کر جاتے ہیں، جھک کر ملتے ہیں، تقریبات میں دس گز کی دستار باندھتے ہیں اور کبھی سوال نہیں اٹھاتے کہ آپ کے بچے خاران، قلات، لسبیلہ کے اسکولوں کے بجائے آکسفورڈ میں کیوں پڑھنے جاتے ہیں، آپ رہائش کراچی کے ڈیفنس کی کوٹھی میں رکھتے ہیں اور سرداری ہم پر چلاتے ہیں۔ ان کا قبائلی نظام ان کی زبان کو اس قسم کے سوالوں کا بوجھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا، یہ سردار اپنے لوگوں سے کتنے مخلص ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایک دینی فلاحی ادارے کے سربراہ سے ملاقات میں ہوا، وہ بلوچستان اور سندھ کی روٹھی زمین سے سینکڑوں فٹ گہرے کنویں کھدوا کر پیاسے لبوں کو سیراب کرتے ہیں. ایک دن ملے بلوچستان کا ذکر چھڑا، وہاں کی غربت افلاس اور باغی رویوں کی بات ہوئی تو کہنے لگے’’سیلانی صاحب! بلوچستان کا مسئلہ معاشی ہے سیاسی نہیں، بےچارے بلوچ کو تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل رہی، آپ ان کے لیے زندگی آسان کریں اور پھرساری زندگی ان کی محبتیں پائیں۔ لیکن مسئلہ ایک اور ہے ہم انہیں ان کے سرداروں کے ذریعے فیض پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ فیض ان کے قلعہ نما کوٹھیوں سے باہر نہیں نکل پاتا، وہیں قید ہو کر افزائش نسل کرتا رہتا ہے، ایک روز اکبر بگٹی صاحب کے ایک صاحبزادے کا میرے پاس فون آیا، کہنے لگے مولانا صاحب! میرے علاقے میں ہیپاٹائیٹس کی ویکسی نیشن تو کروا دیں، میں نے کہا بسم اللہ جی بتائیں کب اور کہاں جانا ہے، جواب میں انہوں نے جو علاقہ بتایا وہ ڈیرہ بگٹی یا بلوچستان کا کوئی دورافتادہ علاقہ نہیں بلکہ ان کی تیسری بیگم کے میکے فیصل آباد کا تھا۔‘‘
بلوچستان کی محرومیوں کی داستان - احسان کوہاٹی

تبصرہ لکھیے