حکمران اوران کے ترجمان زرمبادلہ کے ذخائر میںچند فی صد اضافے سے عوام کے دل بہلارہے ہیں لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ قوموں کو تباہ کرنے والے رجحانات یعنی منافقت، بے حسی ،خودغرضی اور مکاری میں سالانہ نہیں بلکہ روزانہ بنیادوں پر کتنے فی صد اضافہ ہورہا ہے۔ سانحہ کوئٹہ پر ردعمل صرف اس بات کی علامت نہیں کہ اس قوم کی اشرافیہ، مذہبی اور سیاسی رہنما، صحافی اور اہل دانش نہ صرف بدترین بے حسی، خودغرضی اور مکاری کےمرض میں مبتلا ہیں بلکہ ان کی ان بیماریوں میں روزانہ کی بنیاد پر کئی فی صد اضافہ ہورہا ہے.
یہاں اصولوں کے دعویدار ، اصولوں کے نام پر بے اصولیوں کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔ حب الوطنی کے چیمپئن ، اسی نام پر وطن دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ دن رات سچ سچ کے نعرے لگانے والوں کا ہر قول جھوٹ اور ہر عمل منافقت سے لبریز ہے۔ دین کے نام لیوا ، دین کی بدنامی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور قوم پرستی کا علم بلند کرنے والے ، سب سے بڑھ کر قوم فروش ثابت ہورہے ہیں ۔ پاکستان کے ٹھیکیدار ، ذاتی اور ادارہ جاتی مفاد کے لئے قوم کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں اور جمہوریت کے نام لیوا ، جمہوریت کو بدنام اور اس سے لوگوں کو متنفر کررہے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو سانحہ کوئٹہ سے متعلق سب کا ردعمل ملاحظہ کیجئے۔ ایسی بے حسی اور ایسی خودغرضی ۔ الامان الحفیظ ۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول اپنی جگہ بہت دلخراش تھا۔ یہ ان واقعات میں سے ایک تھا جس نے خود مجھے کئی بار اور بہت رلایا تھا۔ اگلے روز اس اسکول کے اندر داخلے کے بعد کے مناظر خیال میں آتے ہیں تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن سانحہ کوئٹہ بعض حوالوں سے سانحہ پشاور سے بھی بڑا اور سنگین سانحہ ہے ۔ پشاور میں زیادہ تر بچے شہید ہوئے تھے جو والدین کے جگرگوشے اورگھر کے افراد تھے لیکن گھروں کے رکھوالے نہیں تھے جبکہ سانحہ کوئٹہ میں جو لوگ اللہ کو پیار ے ہوگئے ، ان میں سے اکثر اپنے اپنے گھر کے بڑے اور کفیل تھے ۔ پشاور کے بچوں نے بڑے ہوکر لیڈر بننا تھا لیکن سانحہ کوئٹہ میں نشانہ بننے والے اکثر وکیل اپنی اپنی جگہ سیاسی اور سماجی لیڈر بھی تھے ۔ اُس سانحہ کے نتیجے میں پشاور لرز ا ضرور تھا لیکن پورایتیم نہیں ہوا تھا جبکہ سانحہ کوئٹہ سے وہ شہر بلکہ وہ صوبہ یتیم ہوگیا ۔
اُس سانحہ کے نتیجے میں پشاور کے ہر علاقے تک لاش ضرورگئی لیکن پورے صوبے کے ہر گائوں تک نہیںگئی تھی تاہم سانحہ کوئٹہ کے نتیجے میں کم وبیش بلوچستان کے ہر ضلع تک لاش گئی،کیونکہ وکلاء کا تعلق صرف کوئٹہ نہیں بلکہ صوبہ بھر کے مختلف علاقوں سے تھا۔ مکرر عرض ہے کہ سانحہ پشاور اپنی جگہ بہت دلگداز تھا لیکن اس کے نتیجے میں پشاور کے طالب علموں کا مکمل صفایا نہیں ہوا تھا۔ خود آرمی پبلک اسکول میں بھی سینکڑوں طلبہ معجزانہ طور پر بچے تھے اور دیگر اسکولوں میں بھی لاکھوں سلامت رہ گئے تھے لیکن سانحہ کوئٹہ کے نتیجے میںوہاں کے وکلاء کی کم و بیش ساری قیادت دنیا سے چلی گئی ۔ اس شہر میں قانون دانوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اوربدقسمتی سے یہ اس طبقے سے کسی بھی شہر سے زیادہ محروم ہوگیا۔ اس شہر کے وکلاء اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے بعض بڑے وکلاء کی طرح انصاف فروش نہیں تھے جو کروڑوں میں فیسز لینے والے ہیں بلکہ اکثریت باز محمد کاکڑ جیسے لوگوں پر مشتمل تھی ، جو مظلوموں کی دادرسی کا وسیلہ تھے ۔
دیگر شہروں کے وکلاء سے کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے وکلاء اتنے مختلف ہیں جتنے کہ حامد خان اور اعتزاز احسن سے علی احمد کرد مختلف ہیں۔ دیگر شہروں کے اکثربڑے وکلاء صرف دماغ سے سوچتے ہیں لیکن کوئٹہ کے وکلاء دل سے بھی سوچتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سانحہ کوئٹہ ، ایک سانحہ نہیں بلکہ ام السانحات ہے لیکن اس سے متعلق قومی سطح کے ردعمل کو دیکھا جائے تو وہ اس سانحے کے دکھ کو اور بھی گہرا اور نوعیت کو سنگین بنا دیتا ہے ۔ میدان سیاست اور میڈیا میں ایک طرف کے خودساختہ ترجمانوں نے اسے ایک طبقے کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا اور دوسری طرف کے چمچوں نے اسے دوسرے طبقے کو زیردبائو لانے کا ذریعہ بنا یا ۔
کون نہیں جانتا کہ عمران خان اور شیخ رشید کس کے پراکسیز ہیں اور شیرانی صاحب یا اچکزئی صاحب کس کے مہرے کاکام کررہے ہیں ۔ اگر نہیں بھی ہیں تو اِن کویقین ہے کہ عمران خان ، شیخ رشید ، طاہرالقادری ، زید حامد اور ائیرمارشل شاہد لطیف جیسے لوگ جو بولتے اور کرتے ہیں، اُن کے اشارے پر بولتے اور کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اگر نہیں بھی ہیں تو اُن کو یقین ہے کہ اچکزئی صاحب، مولانا فضل الرحمان صاحب اور شیرانی صاحب وغیرہ ، اِن کے پراکسیز ہیں ۔
اسی طرح میڈیا میں جو چینلز اور اینکرز ، اُن کے سمجھے جاتے ہیں ، انہوں نے ساری ذمہ داری اِن اور اِن کے پراکسی کے کاندھوں پر ڈالنا چاہی اور جو چینلز یا اینکرز ، اِن کے سمجھے جاتے ہیں ، وہ اُن کے خلاف میدان میں اترے ۔ پھر کیا تھا ۔ گالم گلوچ کا آغاز ہونے لگا۔ ایک طرف سے غداری اور ایجنٹ کے فتوے لگتے رہے اور دوسری طرف سے یہ باور کرایا جاتا رہا کہ جو کچھ ہے وہ اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے ۔ سانحہ ایک طرف رہ گیا ، اس کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے کی کسی نے کوشش نہیں کی ، مسئلے کی تشخیص کی کسی کو فرصت نہیں ملی ، کسی فورم پر اس بات پر غور نہیں ہوا کہ وکلا ء کے خون سے کس طرح امن کے چراغ روشن کئے جائیں اور ان کے اہل خانہ کے آنسو کس طرح پونچھے جائیں۔ الٹا تو تو ، میں میں کا ایک غلیظ سلسلہ اور غدار غدار کا ایک گھنائونا کھیل زور پکڑ گیا۔ رہی سہی کسر میاں نوازشریف کی’’ شریفانہ ‘‘سیاست نے پوری کردی ۔
حسب عادت اپنے اتحادیوں سے پراکسی کا کام لیا اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے وزیرداخلہ سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں اچکزئی صاحب کو لتاڑیں۔ ہدایت صرف اچکزئی صاحب کی ملی تھی لیکن انہوں نے حسب روایت پیپلز پارٹی کو بھی لپیٹ لیا۔ جواب میں ایک سابق وزیرداخلہ جو خود بھی چوہدری ہیں ،میدان میں آئے اور کوئٹہ میں مرحومین کے لواحقین سے تعزیت کے نام پر ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے، چوہدری نثار علی خان سے ذاتی حساب برابر کرنے لگے۔ اگلے دن داخلی سلامتی کے ذمہ دار چوہدری صاحب نے پریس کانفرنس منعقد کی ۔
قوم توقع کررہی تھی کہ وہ سانحہ کوئٹہ کے ذمہ داروں اور ان کے خلاف کارروائی کی تفصیلات دیں گے ، غمزدہ خاندانوں کی زندگی کو معمول پر لانے کے لئے حکومتی اقدامات کا ذکرکریں گے اور وہ جامع حکمت عملی سامنے رکھیں گے کہ جس کے نتیجے میں مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا تدارک ہولیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ آصف علی زرداری اور ایان علی کے آپس میں تعلق کو ثابت کرکے ذاتیات پر اتر آئے اور اب ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی اسی طرح کا ردعمل سامنے آئے گا۔ گویا جو سانحہ قوم کے اتفاق کا ذریعہ بننا چاہئے تھا، قوم کی تقسیم کا ذریعہ بنا دیا گیا اور جس کے نتیجے میں ماضی سے نکل کر اداروں کے مابین تعاون کی نئی بنیاد پڑنی چاہئے تھی ، وہ ان کے مابین مزید تنائو کا موجب بن گیا۔
اقتدار، طاقت اور شہرت کا نشہ ایسا نشہ ہے کہ جو جب تک سر پر سوار ہو، تب تک اچھے بھلے عقلمندوںکی عقل پر بھی پردے پڑے رہتے ہیں یا پھر اس کو تعصب، خوشامد اور مفاد کے زنگ لگے رہتے ہیں ۔ لیکن سید مودودی کے بقول زمانہ بڑا بے رحم صراف ہے اور وہ کھرے کو کھوٹے سے الگ کرکے ہی چھوڑتا ہے ۔ تاریخ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی کہ جو اُن کے خوف سے یا اِن کی نفرت میں ، اُن کو اِن سے لڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قوم کے ہاتھ ایک دن ضروران خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے گریبانوں تک پہنچیں گے کہ جو ۱ِن کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر خوشامد کی شرمناک تاریخ رقم کررہے ہیں اور پراکسیز کا کردار ادا کرکے قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔حقیقت بہت تلخ ضرور ہے اور اس کا بیان اس ملک میںمشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سانحہ کوئٹہ جیسے سانحات کی ذمہ داری سے اُن کو مبرا کیا جاسکتا ہے اور نہ ۱ِن کو ۔
آج اُن کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ اپنے پراکسیز کے ذریعے ذمہ داری اِن پر ڈال دیں اور اِن کے ہاں منافقت اور چالاکی کی اس قدر بہتات ہے یا پھر یہ کہ اِن کے مخالفین کے ہاں عقل کا اس قدر فقدان ہے کہ وہ اُن کو عوام کی نظروں میں مجرم بنا سکتا ہے لیکن اُن کو بھی یاد رکھنا چاہئے اور ۱ِن کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ بے گناہوں کے خون پر سیاست کرنے والوں ، اسے طبقاتی یا ذاتی مقاد کے لئے استعمال کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔
ظلم پھر ظلم ہے ، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ، ٹپکے گا تو جم جائے گا
تبصرہ لکھیے