ہوم << پچاس سال کی شاعرہ/ متشاعرہ ؟ - رقیہ اکبر چوہدری

پچاس سال کی شاعرہ/ متشاعرہ ؟ - رقیہ اکبر چوہدری

ان کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں. دوستو یہ جو کہتے ہیں، " زندگی سب کو ایک موقع ضرور دیتی ہے" درست ہے مگر زندگی سب کو "ایک جیسے" مواقع نہیں دیتی۔ دے بھی دے تو سب کو وقت پر نہیں دیتی۔

کسی کو اوائل عمری میں جو ملتا ہے وہی سب کچھ کسی دوسرے کو عمر کے آخری پہر میں جا کے نصیب ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کسی شخص کو اپنی کسی بھی خداداد صلاحیت کے استعمال کا موقع آدھی عمر گزار کر ملا ہو اور وہ اس صلاحیت کے بل پہ دنیا میں نامور ہونے لگے تو ایسا مت سوچیئے کہ یہ سب مستعار لیا ہوا ہو گا ورنہ صلاحیت ہوتی تو پہلے نہ نظر آ جاتا. ضروری نہیں کہ ہر صلاحیت بچپن میں ہی نظر آنا شروع ہو جائے، اگر نظر آ بھی جائے تو لازم نہیں پوری دنیا کو ہی نظر آ جائے۔ کئی لوگوں کو اپنی صلاحیتں دکھانے، ابھرنے کے مواقع تب میسر آتے ہیں جب عمر کی کئی دہائیاں گزر چکی ہوں۔

جیسے امجد اسلام امجد نے اپنی نظم "سیلف میڈ لوگوں کا المیہ میں لکھا تھا کہ

فصل گل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج دیر میں نکلتے ہیں

آج یہ سب لکھنے کی وجہ یہ بیانیہ بنا کہ اگر کوئی شاعرہ تیس ،پنتیس سال کے بعد منظر عام پہ "ابھرے" تو وہ متشاعرہ ہو گی کیونکہ اگر صلاحیت ہوتی تو اوائل عمری میں نظر آ جاتی۔ اختلاف ہے مجھے اس بات سے کیونکہ اوائل عمری میں نظر نہ آ سکنے کی ایک سو ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسی میں سے ایک وقت پر سازگار ماحول اور مناسب مواقع کا میسر نہ آنا ہے۔ اس لئے اگر آپ کے اردگرد کوئی عمر رسیدہ شاعرہ اچانک سامنے آتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ یہ متشاعرہ ہے ،اسے کوئی اور لکھ کر دے رہا ہے۔

بہت ممکن ہے اسے موقع ہی اب ملا ہو یا پھر قسمت نے اب پختہ عمر میں جا کے یاوری کی ہو۔ میرا ماننا ہے کسی بھی خاتون شاعرہ کی عمر (age) اس کی اصلی یا نقلی یعنی شاعرہ یا متشاعرہ ہونے کی دلیل کبھی نہیں بن سکتی۔ کئی معروف پختہ کار شعراء کا کلام ان کی زندگی کے بعد منظر عام پہ آیا اور چھا گیا۔ مواقع میسر آنے کے حوالے سے اپنی امی کی بات یاد اتی ہے جو اکثر کہتی ہیں:

کھادا وی شاہر اے
تیں پاتا وی شاہر اے

یعنی اچھا کھانا بھی شہر والوں کو میسر آتا ہے اور اچھا پہننا اوڑھنا بھی شہر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے". جی ہاں بڑے شہروں میں رہنے والوں کو کئی چیزیں تو جیسے وراثت میں مل جاتی ہیں ان میں سے ایک آگے بڑھنے کا موقع بھی ہے۔ آج کے حساب سے تو شاید آپ کو یہ بات کچھ عجیب لگے لیکن آج سے دس بیس سال پہلے یہ ایک حقیقت تھی۔ آج آپ کو جو یہ سب آن لائن ایک کلک پہ مل جاتا ہے یہ اس سے پہلے دوردراز کے گاؤں دیہاتوں تو کیا چھوٹے شہر والوں کو بھی میسر نہیں ہوتا تھا۔ تعلیم ،صحت، ٹرانسپورٹ ، کاروبار کے مواقع سمیت دنیا جہان کی ہر سہولت و آسائش ہمیشہ سے شہر والوں کے نصیب میں رہی۔

ایسے ہی تمام قدرتی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع چھوٹے شہر والوں کو ماضی میں کبھی ویسے میسر نہ آ سکا جیسے بڑے شہر والوں کو ہوا۔ ایسے ہی حالات ہماری عمر کے کئی لکھاریوں کو بھی درپیش رہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ (چاہے بڑے شہروں میں رہتے تھے) سوشل میڈیا سے پہلے باوجود اس کے وہ باصلاحیت تھے ابھر نہ سکے پہچان نہ بنا سکے ( اخبارات و جرائد تک ان کی رسائی سمیت کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک آدھ کا ذکر آگے چل کر کریں گے)

مگر جونہی سوشل میڈیا آیا ہر باصلاحیت شخص کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکتا تھا بہت سے جو تیس چالیس کا ہندسہ کراس کر چکے تھے وہ ابھر کر سامنے آئے کیوں کہ صلاحیت تھی لیکن دنیا سے چھپی ہوئی تھی۔ کئی ایک خواتین ہوں گی جو اخبارات و رسائل میں لکھتی رہی ہوں گی ۔ملک گیر شہرت بےشک حصے میں نہ آئی ہو مگر لکھتے رہنے سے کلام میں تو پختگی آتی ہی رہی ہو گی لیکن ساتھ ساتھ عمر بھی پختگی کی طرف رواں دواں رہی۔ اس لئے بعض خواتین شاعرات چالیس کیا پچاس کا ہندسہ کراس کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے عمر کے آخری حصے میں ابھر کر سامنے آئیں تو ان کے کلام کی پختگی کو عمر سے نتھی کر کے شک میں پڑنا انہیں جینوئن تسلیم نہ کرنا زیادتی ہے۔

عمر کسی کے اوریجنل ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے یاد رکھیں: Age is just a number . نہ سیکھنے کی کوئی عمر ہوتی ہے نا چھپی ہوئی خدادا صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اور نہ ہی معروف ہونے کی۔

Comments

Avatar photo

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ اور کالم نویس ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment