کراچی ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہی دانیال ایئرپورٹ سے ملحق فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی جانب چلا گیا اور کچھ چیزیں خرید کر اپنے خالوکا انتظار کرنے لگا جو اسے لینے آنے والے تھے۔
کراچی کا موسم قدرےگرم تھا مگراسلام آباد یونائٹڈ اور کراچی کے مابین کھیلے جانے والے psl میچ کو دیکھنے کی خوشی میں اس کی طبیعت پرموسم تو کیا کچھ بھی گراں نہ گزر رہا تھا۔ اسی میچ کو دیکھنے کے لیے تو وہ اسلام آباد سے کراچی پہنچا تھا، یہی اس کا جنون تھا ،خالو کے آتے ہی وہ گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔
کے ایف سی برگر، پیپسی اور لیز کے دو پارسلز کے ساتھ دانیال کمرے میں داخل ہوا جہاں اس کا کزن احمد کچھ پڑھنے میں مصروف تھا بڑے تپاک سے احمد نے مصافحہ اور گرم جوشی کا اظہار کیا، دانیال نے ایک پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تو احمد نے کچھ عجیب سی نظروں سے اسکی طرف دیکھا جن کو دانیال نہ سمجھ سکا۔
" کیا ہوا احمد پکڑو نا تمہارے لیے لایا ہوں "دانیال نے کہا
"سوری دانیال بھائی میں انسانی گوشت سے بنا برگر خون سے بھری کولڈ ڈرنک اور انسانی چربی میں بنے یہ چپس نہیں کھا سکتا کیونکہ میں مسلمان ہوں اور میرے لئے یہ سب حرام ہیں" احمد نے دو ٹوک لہجے میں کہا.
"میں بھی مسلمان ہوں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے یہ تو چکن سے بنے ہوتے ہیں میں تو تقریبا ہر روز کھاتا ہوں ،مجھے یہ اس قدر پسند ہیں کہ انکو کھائے بغیر میں رہ ہی نہیں سکتا، تمہیں آخر کس نے یہ غلط خبر دے دی؟" دانیال کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
آخر سمجھتا بھی کیسے پیسے کی ریل پیل ، ہر خواہش کی فوری تکمیل اور ناز نخرے کے ماحول میں پلا بڑھا دانیال جہاں ایسے معاملات پر نہ کبھی توجہ دلائی گئی اور نہ ہی انکے اہم ہونے کا احساس کبھی ذہن ودل میں اجاگر ہوا ۔
"دانیال بھائی یہ تمام چیزیں اسرائیلی ہیں ،وہی اسرائیل جو ڈیڑھ سال سے ہمارے مسلمان فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے آپ کو نہیں لگتا کہ ان چیزوں کے استعمال کی صورت میں ہم ان کے قتل عام میں معاو بن رہے ہیں ،کیونکہ جو پیسہ ہم ان مہنگی چیزوں کے عوض انہیں دے رہے ہیں اس سے وہ ہمارے ہی لوگوں کے لیے بارودخریدتے ہیں ۔
ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے تو اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کی تمام تر مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں تاکہ ان کی معیشت متاثر ہو، آپ کو پتہ ہے اللہ نے بار بار ہمیں حکم دیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا ساتھ دیں"
15 سالہ احمد کہہ رہا تھا اور 22 سالہ دانیال یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اب تک اس نے ایسا کیوں نہ سوچا وہ تو بس ان معاملات کو سرسری سا دیکھ کر گزرتا رہا نہ ہی کبھی اسے والدین نے سمجھایا نہ کبھی سرزنش کی۔ ڈیڑھ سال سے فلسطین میں ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے مگر اس نے تو ایسے کبھی نہیں سوچا کہ اسکا بھی کوئی کردارہوناچاہئے ۔ اسے تو ہمیشہ یہی لگا جیسے ان معاملات سے اسکا لینا دینا ہی نہیں وہ بھلا کیا کر سکتا ہے۔
" آپ نے کبھی سوچا ہے دانیال بھائی کہ یہ چیزیں کھائے بنا آپ کیوں نہیں رہ سکتے؟
ذرا غور تو کیجیے کہ اس میں ایسا کیا ہے جس نے آپ کی رگوں میں نشے کی طرح اتر کر آپ کو اس کا عادی بنا دیا ہے ، آپ کی طرح لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے، یہ کھانے کی چیز یں ہی تو ہیں پھر ایسا کیا ہے ان میں کہ انکا عادی انکی طرف کھنچا چلا جاتا ہے ؟ گھر کے بنے مزیدار کھانے میں کبھی اتنی لذت محسوس کی ہے حالانکہ وہ تو ہم بچپن سے کھا رہے ہیں ، تو ذرا سوچئے کچھ تو اس میں ایسا ملایا گیا ہے جو ہماری رگوں سے چمٹ چکا ہے۔کیونکہ قران نے واضح کر دیا کہ یہود نصاری کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے تو یقین محکم ہونا چاہیے کہ نہیں ہو سکتے تو پھر یہ ہمیں اچھی چیزیں کیوں مہیا کریں گے" احمد نے اپنی بات مکمل کی۔
" مگر یہ سب تو پاکستان میں بنتا ہے اور اس میں کام کرنے والے بھی تمام پاکستانی ہیں" دانیال نے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوال کو لفظوں کی شکل دی۔
" جی ہاں مگر جو مصالحہ جات ان کو تیار کرنے میں استعمال ہوتے ہیں اور جو کیمیائی اجزاء ڈرنکس بنانے میں استعمال کئے جاتے ہیں وہ تمام تیار کرکے باہر سے بھیجے جاتے ہیں ، جنکا فارمولا وہاں پہ کام کرنے والوں تک کو معلوم نہیں ہوتا ،ہم تو یہ بھی نہیں جانتے ان میں موجود اجزاءحلال ہیں بھی یا نہیں" احمد نے دانیال پر گویا دل دہلانے والاپ انکشاف کیا۔
" مگر یہ سب باتیں تمہیں کیسے معلوم ہوئیں"دانیال کے لہجے میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
" ہم تمام گھر والے تو عرصہ سے تمام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں اور میں ہر چیز پر مکمل معلومات بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ مسلمان کو کبھی بے خبر نہیں ہونا چاہیے اس کے ارد گرد بہت سے خطرات منڈلا رہے ہیں اور چوکنا رہ کر صرف اپنی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنا بھی بہت ضروری ہے ، قرآن نے اس ضمن میں ہماری مکمل رہنمائی کر دی ہے ، ہم فیملی ممبرز کے علاوہ میرے اساتزہ اور دوست سب کراچی کی ریلی میں شریک تھے جو غزہ کے لیے کی گئی تھی اور کل آپکے شہر اسلام اباد میں ریلی ہے"
احمد نے اس کو معلومات فراہم کیں جس سے دانیال یکسر ناواقف تھا۔
" اچھا اب آپ آرام کریں تھک گئے ہوں گے،
احمد کمرے سے چلا گیا مگر دانیال کو سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ گیا،احمد کی باتیں ذہن میں گھومنے لگیں ، کچھ دیر بعد اسے ایسا لگا جیسا دل کے اندر روشنی اتر رہی ہو، نہ جانے رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگی مگر اسکی صبح بہت روشن تھی، فجر کی نماز کے لیے تمام گھر والے اٹھے تو نمازسے فارغ ہوکر اس نے سب گھر والوں کو اطلاع دی کہ صبح 9 بجے کے فلائٹ سے وہ واپس جا رہا ہے تاکہ شام میں ہونے والی غزہ مارچ میں شریک ہو کر پہلے انسان اور پھر مسلمان ہونے کا حق ادا کرنے کی ادنی سی کوشش کر سکے۔
"پھر تو ہم سب بھی آپ کے ساتھ ہی چلتے ہیں "احمد نے کہہ کر اپنے والدین کی جانب دیکھا جنہوں نے مسکرا کر لبیک کہا.
تبصرہ لکھیے