ہوم << طاقتور ممالک کی سیاسی و عسکری چالیں - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

طاقتور ممالک کی سیاسی و عسکری چالیں - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

عہدِ جدید میں سیاسی و عسکری چالوں کی پیچیدگیاں دنیا کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا چکی ہیں۔ ریاستوں کے مفادات، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اسلحے کی دوڑ، اور عالمی نظام میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایسے چیلنجز کو جنم دیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ موجودہ دور میں سیاست اور جنگ کی حکمت عملیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اور یہ چالیں عالمی استحکام کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

موجودہ دور میں طاقتور ممالک اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کے لیے عسکری طاقت کا کھلم کھلا یا پوشیدہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب جنگیں صرف میدانِ جنگ میں لڑی جاتی تھیں، لیکن آج عسکری حکمت عملیوں میں سائبر جنگ، پراکسی وار، اور اقتصادی جنگ شامل ہو چکی ہیں۔ ان حربوں کا مقصد اپنے مخالفین کو کمزور کرنا اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان چالوں نے نہ صرف ممالک کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ عام شہریوں کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

سائبر جنگ جدید دور کا ایک خطرناک پہلو ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے جہاں انسانی زندگی کو آسان بنایا، وہیں اس نے نئی قسم کے خطرات کو بھی جنم دیا ہے۔ مختلف ممالک اپنی عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مخالف ممالک کے انفراسٹرکچر، ڈیٹا بیس، اور دفاعی نظاموں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ سائبر حملے نہ صرف حکومتی اداروں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عوامی سہولیات، بینکنگ نظام، اور طبی سہولیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، چند سال قبل بڑے پیمانے پر ہونے والے سائبر حملے نے دنیا بھر میں اہم اداروں کو مفلوج کر دیا تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں۔

پراکسی جنگیں عہدِ حاضر کی ایک اور پیچیدہ چال ہیں، جن میں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دوسرے ممالک میں اپنے اتحادی گروہوں کی مدد کرتی ہیں۔ یہ جنگیں براہِ راست تصادم سے بچنے کا ذریعہ ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات نہایت تباہ کن ہوتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، اور جنوبی ایشیا میں جاری تنازعات پراکسی جنگوں کی واضح مثالیں ہیں، جہاں بڑی طاقتوں کی مداخلت نے مقامی آبادی کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اقتصادی نظام تباہ ہو چکا ہے، اور انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

علاوہ ازیں، اسلحے کی دوڑ نے بھی دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ طاقتور ممالک جدید ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت میں مصروف ہیں، جس کے نتیجے میں کمزور ممالک کو بھی اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کا دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار، جیسے ڈرونز، ایٹمی ہتھیار، اور مصنوعی ذہانت پر مبنی عسکری نظام، دنیا کو مزید خطرناک بنا رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا بے تحاشہ استعمال نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اقتصادی پابندیاں بھی جدید سیاسی و عسکری چالوں میں ایک اہم ہتھیار بن چکی ہیں۔ طاقتور ممالک اپنے مخالفین کو دباؤ میں لانے کے لیے اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں، جو بظاہر غیر عسکری حربہ لگتا ہے، لیکن اس کے اثرات نہایت گہرے اور مہلک ہوتے ہیں۔ ایران، شمالی کوریا، اور وینزویلا جیسے ممالک پر لگائی گئی پابندیاں ان کی معیشت کو کمزور کرنے کا باعث بنی ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں عام عوام کو غذائی قلت، صحت کی سہولیات کی کمی، اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عہدِ جدید میں اطلاعاتی جنگ (پروپیگنڈا وار) بھی ایک اہم عنصر بن چکی ہے۔ مختلف ممالک اپنے بیانیے کو تقویت دینے اور مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ جنگیں ذہنوں کو کنٹرول کرنے، عوامی رائے کو متاثر کرنے، اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ جھوٹی خبریں، غلط معلومات، اور گمراہ کن پروپیگنڈا مختلف معاشروں میں اختلافات اور دشمنی کو جنم دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، روس اور امریکہ کے درمیان جاری اطلاعاتی جنگ نے دنیا بھر میں سیاسی اور سماجی عدم استحکام پیدا کیا ہے۔

دہشت گردی بھی عہدِ جدید کے غیر محفوظ حالات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کئی دہشت گرد تنظیمیں، جنہیں بعض اوقات طاقتور ممالک کی خفیہ حمایت حاصل ہوتی ہے، اپنی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کرتی ہیں بلکہ ممالک کے اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ کرتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں ان کے اثرات کی واضح مثال ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی کمی بھی عہدِ جدید کی سیاسی و عسکری چالوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پانی، تیل، اور دیگر قدرتی وسائل کے حصول کے لیے کئی ممالک کے درمیان تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ ان تنازعات نے کئی خطوں میں مسلح تصادم کو جنم دیا ہے، جہاں عسکری طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وسائل کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نہ صرف موجودہ نسل کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔

عالمی اداروں کی ناکامی بھی موجودہ غیر محفوظ حالات میں ایک اہم وجہ ہے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے، جو عالمی امن کے قیام کے لیے بنائے گئے تھے، بڑی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے درمیان اختلافات نے ان اداروں کو غیر فعال بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی بحرانوں کو حل کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ فلسطین، شام، اور یمن جیسے تنازعات اقوام متحدہ کی ناکامی کی واضح مثالیں ہیں۔

موجودہ عالمی صورتحال میں، بڑی طاقتیں اپنی جغرافیائی سیاست کو مستحکم کرنے کے لیے جدید عسکری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔ امریکہ، روس، اور چین کی بڑھتی ہوئی کشیدگی، خاص طور پر یوکرین جنگ اور تائیوان کے تنازعے میں، عالمی سلامتی کو براہ راست متاثر کر رہی ہے۔ جدید جنگی ہتھیار، جیسے ہائپرسونک میزائل اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام، ان تنازعات میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، دنیا بھر میں انتخابی سیاست نے بھی جمہوری اقدار کو کمزور کیا ہے۔ کئی ممالک میں، سیاسی قائدین انتخابات کا سہارا لے کر اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، روس اور بیلاروس جیسے ممالک میں انتخابات کو طاقتوروں کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جبکہ دیگر جمہوری ممالک میں عوامی پولرائزیشن اور سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ تمام چیلنجز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عہدِ جدید کی سیاسی و عسکری چالوں نے دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ عالمی رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ، تصادم، اور مفادات کی سیاست کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے تعاون، مذاکرات، اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو فروغ دینا ہوگا۔