اس مضمون کی سرخی میں تحریر کردہ شعر کا پہلامصرعہ برصغیر کے ممتاز قطعہ نگار سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی کے ایک قطعہ سے مستعار لیا گیا ہے جو انہوں نے 1970-71میں ملک کی تشویش ناک صورت حال کو دیکھ کر پاکستان کے دولخت ہونے سے قبل تحریر کیا تھا، جو ملک کے ایک بڑے روزنامے میں شائع ہوا ۔ پورا قطعہ مجھے یاد نہیں کیوں کہ 54 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ بس قطعہ کے آخری بند میں شاعر محترم نے اسلامی بلاک سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا،’’کہاں پہ سورہا ہے اسلامی بلاک آخر‘‘ ۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ مسلم امہ پر جب بھی آزمائش کی گھڑی آئی، اسلامی بلاک خواب خرگوش کے مزے لینے میں مشغول رہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 14دسمبر 2015 میں 40 مسلمان ممالک کے بین الحکومتی فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آیا تھا جسے عربی زبان میں’’التحالف الاسلامی العسکری ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔یہ فوجی اتحادسعودی عرب کی زیر قیادت وجود میں آیا تھا جس کی سربراہی کا اعزاز پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو حاصل ہوا ۔اس اتحادکے قیام کا بنیادی مقصد ’’دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور اس کا انسداد‘‘کرنا تھا۔ لیکن 40 ممالک پر مشتمل یہ فوجی اتحاد، مسلمان ممالک، خاص کر کشمیر اور فلسطین پر یہود و ہنود اور نصاریٰ کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سدّباب نہیں کرسکا۔
اس سے قبل 25 ستمبر 1969 میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں 24مسلمان ممالک کے نمائندوں پر مشتمل پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید اور مراکش کے شاہ حسن مرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔اس کانفرنس کاانعقاد مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کی اپیل پر کیا گیا تھا۔ 21 اگست 1969 کو آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک متعصب مسیحی عالم نے مسجد اقصٰی میں خطبے کے لیےبنائے جانے والے سلطان صلاح الدین ایوبی دور کے آٹھ سو سالہ قدیم منبر کو نذر آتش کردیا تھا جس سے مسجدکی چھت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ مفتی اعظم فلسطین نے اسے ’’ صیہونیوں کا گناہ‘‘ (Jewish Crime)قرار دیتےہوئے مسلمان ممالک کے سربراہوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس بلا کر اس نوع کے مظالم کےسدباب کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔ اس سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے صدر مملکت جنرل یحیی خان نے کی تھی۔اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں ’’تنظیم تعاون اسلامی‘‘ (او آئی سی )کا قیام عمل میں آیا۔ 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اس تنظیم کو دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ تنظیم بھی اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو یہود، ہنود اور نصاریٰ کی دہشت گردی اور مظالم سے تحفظ دلوانے میں کسی بھی قسم کا فعال کردار ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔
دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس 22 فروری 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس کے انعقاد میں شہید وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا۔ کانفرنس میں نوزائیدہ اسلامی مملکت بنگلہ دیش کی نمائندگی شیخ مجیب الرحمن نے کی تھی۔ ان کے علاوہ لیبیا کے صدر کرنل معمر القذافی، سعودی عرب کے بادشاہ، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، یوگنڈا کے صدر عیدی امین، تنظیم آزادی فلسطین کے چیئرمین یاسر عرفات، الجزائر کے صدر حواری بومدین سمیت دیگر مسلم ممالک کے سربراہان نےاپنے ممالک کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس میں تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ اس کانفرنس میں شریک 57 اسلامی ممالک کے سربراہان میں سے بیشتر کا انتقال غیر طبعی موت اور افسوس ناک حالات میں ہوا۔
بھارت عرصہ دراز سے اپنے ازلی دشمن پاکستان کے خلاف جنگ کے جواز تلاش کررہا تھا جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں وقوع پذیر ہونے والے خوں ریز واقعے سے حاصل ہوگیا۔یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام کی سحر انگیز وادی ’’بیسران ‘‘ میں پیش آیا، جہاں دو درجن سے زا ئد سیاحوں کو انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار کر تمام الزام پاکستان پر عا ئد کردیا گیا۔بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی ابتدا ’’آبی جنگ‘‘ سے کی اور فوجی حملے سے قبل پاکستانی عوام کو پیاسا مارنے کے لیے کئی عشرے قبل طے پانے والے سندھ طاس منصوبے کو معطل کردیا۔ یہ بات بھی ممکنات میں سے ہےکہ بھارت پاکستان کے خلاف جنگ میں ایٹمی و روایتی آلات حرب استعمال کرنے کی بجائے دریائی پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرے اور مستقبل قریب میں دریائے راوی ، بیاس و ستلج کے طوفانی ریلے کا رخ پاکستانی علاقوں کی جانب موڑ کر سندھ اور پنجاب کے درجنوں شہروں اور ہزاروں شہریوں کو غرق آب کردے ۔
پاکستان کی مسلح افواج اس وقت دو محاذوں پر لڑ رہی ہیں ۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کے سابقہ تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے لیے موجودہ حالات کو سازگار سمجھا ۔اس نے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب پاکستان کی مسلح افواج اندرونی و بیرونی دشمنوں اور سازشی عناصر سےنبرد آزما ہے۔ سندھ کے صوبے میں چھ نہروں کے قضیہ کی وجہ سے بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند تنظیمیں ملک کے ٹکڑے کرانے کے لیے پاکستان دشمن ممالک کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بلوچستان کے طول و عرض میں آگ اور خون کا کھیل،کھیل رہی ہیں۔ خیبرپختونخوا کی صورتحال بھی مخدوش ہے۔ چند سیاسی جماعتیں موجودہ حکمرانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پھیلا کر اور عوام میں بے چینی پیدا کرکے ملک میں دوسرے ’’جیوڈیشل مارشل لا‘‘ کی راہ ہموار کرکے موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنا چاہتی ہیں۔دوسری جانب ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا بریگیڈ غیر ممالک میں بیٹھ کر فارن فنڈنگ سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ اور سماجی ویب سائٹس پرمہم جوئی کررہا ہے۔ وہ غیر ملکی ٹاسک کے مطابق پاک فوج کا مورال گرا کر فوجی افسران و اہل کاروں میں بددلی و بے چینی پیدا کرکے اپنی قیادت سے بدظن کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔
مگر یہ بات بھی زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ فوجی افسران و جوان اپنی موجودہ قیادت پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور موجودہ صورت حال میں ان کا عزم و حوصلہ پہلے سے زیادہ بلند ہے۔ ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلح افواج پوری طرح تیار ہے۔ اسے اس بات کا بھی ادراک ہے کہ پاکستان کے اندر موجود ملک دشمن عناصر اقتدار پر قبضہ کرنے، واشنگٹن پلان کے مطابق ملک کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کرانے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں اور وہ 1971 جیسے حالات پیدا کرکے پاکستان دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محب وطن قوتیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر نظریاتی سرحدوں پر ملک کا تحفظ کریں۔ ملک رہے گا تو آپ کی سیاست بھی پروان چڑھے گی اور عوام میں آپ کی پذیرائی بھی برقرار رہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں قوم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسند اقتدار پر آپ کو بٹھا دے۔ سرحدوں پر مسلح افواج کی مصروفیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں موجود ملک دشمن قوتیں بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالات خراب کرسکتی ہیں۔ملک و قوم کو محفوظ و مامون بنانے کے لیے 1971 کی جنگ کی طرح آج بھی البدر اور الشمس جیسے مجاہدانہ جذبے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی بہادر فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرکے ملک و ملت کی حفاظت کرسکیں۔
تبصرہ لکھیے