ہوم << گھٹنے کے جوڑوں کے درد کا متبادل علاج کے لئے سنگاپور کے مریضوں کا سفر ِملائشیا - اعظم علی

گھٹنے کے جوڑوں کے درد کا متبادل علاج کے لئے سنگاپور کے مریضوں کا سفر ِملائشیا - اعظم علی

گزشتہ سال جونی لام کے گھٹنوں کے اسکین سے سامنے آیا کہ اسکے جوڑوں کو خاصا نقصان پہنچ چُکا ہے تو اس نے علاج کی تلاش شروع کردی ۔ اٹھاون سالہ جونی لام کئی سالوں سے دونوں گھٹنوں کی سوجن اور درد کو برداشت کررہا تھا۔ لیکن اب اس کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا تو اس کا چلنا پھرنا اور روزمرہ کئی زندگی بھی مشکل ہوتی جارہی تھی۔

گھٹنوں کا جوڑ کے درمیانی گودا جو گھٹنوں کی ہڈیوں اور جوڑوں کے درمیان جھٹکے برداشت کرنے والے گدّے shock-absorbing cushion کے طور پر کام کرتا ہے ۔ جب یہ گودا خشک ہو جاتا ہے تو ہڈیاں و جوڑ کی رگڑ کے نتیجے میں گھٹنوں کے درد و سوجن پیدا ہوتی ہے ۔

سنگاپور کے اسپتال کے ڈاکٹر نے اس بتایا کہ اس کا واحد راستہ دونوں گھٹنوں کی مکمل تبدیلی ہے لیکن چونکہ اس سرجری کے بعد نئے بنے ہوئے گھنٹوں کی اوسط زندگی پندرہ بیس سال ہوتی ہے ان کی نسبتا کم عمر کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ جتنا ممکن ہو اس سرجری میں تاخیر کی جائے تاکہ (پندرہ بیس سال )کے بعد دوبارہ سرجری سے احتراز کیا جاسکے۔
لیکن وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے کہ ان کا چلنا پھرنا بلکہ کھڑا ہونا بھی تکلیف دہ ہو گیاتھا۔ وہ فکر مند تھے کہ ابھی 58 سال کی عمر میں حالت اتنی بُری ہے تو ستر سال کی عمر میں کیا حال ہوگا ۔ اُنہوں نے کہا.

بے تابی سے متبادل علاج کی تلاش میں ان کے سامنے ایک ملائشیا کی کمپنی جو سٹیم سیل (خلیہ بنیادی) تھراپی کی خدمات پیش کررہی تھی آئی ۔ اس کمپنی (انٹرنیشنل کینسر تھراپی اینڈ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی ) کی ویب سائٹ کے مطابق یہ مقامی مصدّقہ لیبارٹریوں و ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر مقامی و غیر ملکی مریضوں کا اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے ذریعے علاج کراتی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر وہ شکوک و شبہات کا شکار تھے، وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کتنے قابل اعتماد ہیں؟ اور اسٹیم سیل کے نام پر ان کے اندر کیا ڈالنے والے ہیں لیکن مزید معلومات و تحقیق کے بعد وہ کچھ حدتک پُر اعتماد ہو گئے اور خطرہ مول لینے پر تیار ہو گئے ۔گزشتہ سال جولائی میں وہ کوالالمپور کے ایک نجی شفاخانے میں اپنے دنوں گھٹنوں میں سٹیم سیل (خلیہ بنیادی) تھراپی کے لئے داخل ہو گئے ۔ اس علاج میں عطیہ شدہ نوزائیدہ بچے کی نال umbilical cord سے حاصل شدہ اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کو harvesting کے ذریعے بویا بعد میں ایک مصدقہ لیبارٹری میں انہیں کلچر کرنا شامل ہے ۔

(اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) اس قسم کے خلیات ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر جسم کے بعض اعضاء کی مرمت کرنے میں استعمال ہو سکتے ہیں جو ادویات سے ممکن نہیں لیکن یہ اب تک مصدقہ ٹیکنالوجی نہیں ہے اس پر تحقیقات جاری ہے۔ بعض ممالک میں بچے کی پیدائش کے فوری بعد اس کی نال یعنی umbilical cord سے انہیں نکال کر محفوظ رکھا جاتا کہ تاکہ مستقبل میں کسی بیماری کی صورت میں بیرون معطی کی بجائے بچے کے اپنے اسٹیم سیل کو استعمال کیا جاسکے تاکہ جسم میں مزاحمت کے امکانات کو ختم کیا جاسکے)

تیار شدہ اسٹیم سیل کو ناکارہ گھٹنوں کے خشک ہونے والے گودے کے مقام پر انجیکشن کے زریعے داخل کیا جاتا ہے جہاں سے وہ نئے خلیات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔یہاں پر جونی لام کو کچھ مشکل وقت گذارنا پڑا لیکن آخر کار کامیابی ہوئی ۔ انجیکشن لگانے کے چند گھنٹوں بعد ان کے گھٹنے سوجنے لگے جو کہ انتہائی تکلیف دہ تھا ۔ یہ درد تین چار دن تک رہا پھر سوجن ختم ہو گئی اور ان کا بایاں گھٹنا بالکل ٹھیک ہو گیا لیکن ان کے دائیں گھٹنے میں درد باقی رہا ۔ اس کے لئے چند ماہ کے بعد وہ دائیں گھٹنے میں اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کا انجیکشن لگوانے کے لئے دوبارہ ملائشیا گئے ۔ اس مرتبہ (نجیکشن کے بعد) درد و سوجن ایک ہفتہ باقی رہی لیکن اس کے بعد سے وہ بالکل صحتیاب ہو گئے ۔

میرے دونوں گھٹنے بالکل ٹھیک ہیں ۔ اب بھی ناچ، بھاگ بلکہ چھلانگیں بھی لگا سکتے ہیں ان کا اس علاج کا خرچ تقریباً سات ہزار امریکی ڈالر ہوا ۔ (انہوں نے بتایا)

سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے
جونی لام واحد سنگاپوری شھری نہیں ہیں جو گھٹنوں کے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے علاج کے لیے سرحد پار کرکے ملائشیا گئے ، چونکہ یہ طریقہ علاج سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے اس لئے بعض مریض ملائشیا میں اس طریقہ علاج سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سفر کرتے ہیں ۔(ملائشیا و سنگاپور کے درمیان زمینی سرحد ہے اور وہاں بس و کار و موٹر سائیکل کے ذریعے باآسانی جایا جاسکتا ہے)

وہ مریض بھی جو گھٹنوں کے علاج کے لیے روایتی گھٹنوں کے تبدیلی یا مائیکروفریکچر سرجری جس میں گھٹنوں کے جوڑوں میں باریک سوراخ کے ذریعے نئے خلیات پیدا کرنے کی کوشش کے طریقہ علاج سے ہچکچا رہے ہیں (اس لئے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) علاج کے لئے ملائشیا میں قسم آزمائی کا جوّا کھیلنے پر تیار ہو رہےہیں)۔ کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر نے اپنے 2007 کے افتتاح سے اب تک ایک ہزار سے زائد گھنٹوں کے اسٹیم سیل پروسیجر کر چکا ہے نے بتایا کہ ان کے پاس سالانہ اوسطا ایک سنگاپور کا مریض آتا ہے۔ سنگاپوری شھریوں کے پاس اپنے وطن میں بہت اعلیٰ معیار کی صحت کی سہولیات دستیاب ہیں اس لئے وہ ہمارے پاس اسی صورت میں آتے ہیں جب وہ انتہائی مجبور ہو جائیں ۔ کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل کے ایک ہڈیوں کے ماہر سر جن نے بتایا۔

اسی طرح انٹرنیشنل کینسر تھراپی اینڈ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر لِم نے بتایا کہ گذشتہ سال سے ان کے پاس سنگاپور کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے. چینل نیوز ایشیا نے اب تک چار مریضوں سے گفتگو کی ہے جو گھٹنوں کے اس علاج کے لیے ملائشیا گئے تمام افراد کا کہنا ہے کہ انہیں اس علاج سے فائدہ ہوا ہے۔ تہتر سالہ ٹونگ پینگ چیونگ نے بتایا کہ انہوں نے 2014 میں اپنے دائیں گھٹنے اور 2020 میں بائیں گھٹنے میں ملایشیا کے کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر میں یہ علاج کرایا اور دونوں گھٹنوں میں علاج کے بعد درد میں افاقہ ہوا۔

جونی لام کے برعکس جنہوں نے عطیہ شدہ اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) استعمال کئے تھے، ٹونگ پینگ چیونگ کے لئے ان کے اپنے جسم سے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) نکال کر لیبارٹری میں اُگا کر ان کے گھٹنوں میں انجیکشن کے ذریعے لگائے گئے۔ اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ (طریقہ علاج) کام کرے گا یا نہیں لیکن چونکہ گھٹنوں کی تبدیلی کے آپریشن سے اجتناب کرنا چاہتا تھا اس لئے میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، میں ڈاکٹر کو کہنا چاہتا تھا کہ اگر یہ علاج ناکام بھی ہوا تب بھی مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔

ایک اور سنگاپوری مریض جو اپنا نام لی بتاتے ہیں نے بتایا کہ وہ 2014 میں اپنے بائیں گھٹنے کے اس علاج کے بعد بلا تکلیف کے چلنے پھر نے کے قابل ہو گیا تھا۔انہں ان کے سنگاپور کے ڈاکٹر نے اس طریقہ علاج کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کے ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ طریقہ علاج سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے لیکن وہ اس معاملے میں تجربہ کار ملائشیا کے ڈاکٹر سے متعارف کرا سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ علاج کے بعد ان کا گھٹنا بتدریج بہتر ہوگیا ۔۔ اب بھی کبھار ہی درد ہوتا ہے۔

ان چاروں مریضوں (جو ملائشیا میں یہ علاج کرا چُکے ہیں) اور کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر کا کہنا ہے کہ ملائشیا میں یہ علاج کے اخراجات مرض کی پیچیدگی کے مطابق تیس ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار ملائشیا رنگیت (انیس لاکھ سے پچھتر لاکھ روپے) کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا مریض کو اسٹیم سیل کے انجیکشن سے قبل کسی اور سرجری کی ضرورت ہو گی یا اضافی انجیکشنوں کی ضرورت پیش آئے گی۔

سنگاپور کی وزارت صحت اس سلسلے میں سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ گھٹنوں کے علاج کے لیے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے استعمال کے معاملے کا جائزہ لے چُکے ہیں لیکن اب تک ( فوائد کے بارے) میں اب تک تواتر کے ساتھ شھادتیں نہیں مل پائیں ہیں کہ اسے باقائدہ علاج کی شکل میں اختیار کیا جاسکے ۔ سنگاپور کے نیشنل یونیورسٹی اسپتال نے 2022 میں 392 مریضوں کے 440 گھٹنوں کے علاج پر اسٹیم سیل کے استعمال کے نتائج پر تحقیق کی ۔ جس کے نتائج کے مطابق اسٹیم سیل علاج کے دوسالوں بعد تک 80 فیصد مریضوں میں کامیاب رہا، 72 فیصد مریضوں کو دس سال تک مزید کسی علاج کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ درد ہوا ۔

یہاں اس علاج کے لیے مریض کی کمر کے نچلے حصے سے سٹیم سیل حاصل کرکے انہیں لیبارٹری میں اُگایا جاتا ہے، پھر تیار شدہ خلیے گھٹنوں کے نقصان شدہ cartilage میں انجیکشن کے ذریعے ڈھال دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ خود بخود نئے خلیوں کی صورت اختیار کرسکیں۔ نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے پروفیس جیمس ہوئی جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی تھی کا کہنا ہے کہ انہیں سنگاپور کی وزارت صحت نے تحقیقی مقصد کے اسٹیم سیل بنانا اور استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

پروفیسر ہوئی جو نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے کے سربراہ ہیں نے بتایا کہ فی الحال یہ علاج پچپن سال کی عمر تک کے مریضوں کی حدتک کے لئے کیا جارہا ہے لیکن اگر کوئی جسمانی طور پر بہت زیادہ چست و صحتمند ہو اس کے لئے خصوصی طور پر عمر کی حد بڑہائی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل یونیورسٹی اسپتال میں گھٹنوں کے کارٹلیج کے علاج کے اخراجات بارہ ہزار سنگاپور ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر کے درمیان ہیں (چوبیس سے تیس لاکھ پاکستانی روپے)۔

نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے بارے میں راقم کی ذاتی مشاہدات

(سنگاپور جنرل ہاسپٹل اور نیشنل یونیورسٹی اسپتال سنگاپور کے سرکاری شعبوں کے دو اعلی ترین اسپتالوں میں سے ہیں۔ لیکن نیشنل یونیورسٹی اسپتال ایک ٹیچنگ اسپتال ہے جہاں سنگاپور کے اعلیٰ ترین ماہرین خدمات انجام دیتے ہیں ۔ راقم الحروف کا یہاں پر متعدد مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ دیکھی گئی ہے۔ کہ اگر مریض ممکنہ خطرناک صورتحال کا شکار ہو تو اس کے علاج کا فیصلہ کسی واحد کنسلٹینٹس کی بجائے مختلف شعبوں کے ماہرین کا پینل بحث مباحثے کےبعد علاج کا بہترین لائحۂ عمل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے)

یہی کچھ تیس سال قبل میرے والد مرحوم کی کینسر کی بیماری کے دوران گیا تھا۔۔ یہی کچھ گذشتہ سال میرے بیٹی کی سھیلی کے شوہر کے معاملے میں ہوا جب ایک اسکین کے دوران ان کے دل کے قریب cyst نظر آیا وہ اپنے ٹیسٹ کے نتائج کو لیکر سنگاپور کے تقریباً تمام نجی و سرکاری شعبے کے ماہرین کے پاس لیکر گئے اور مجموعی رائے یہی تھی کہ یہ ایک بے ضرر cyst ہے جو درد نہیں کرتی اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے متعلقہ ماہرین کے پینل کی رائے اس سے برعکس تھی۔ ان کا کہنا یہی تھا کہ ننانوے فیصد امکان ہے کہ یہ بے ضرر ہے لیکن اگر ان کا کہنا یہی تھا کہ اگر جسم میں کسی چیزکی موجودگی غیر ضروری ہے۔ اسے چھوڑنا نہیں چاہئے ۔ہماری بیٹی کی سہیلی کےشوہر نے ان کی رائے قبول کرکے اس Cyst کو سرجری کے ذریعے نکلوانے کا فیصلہ کرلیا ۔

یہی ان کی خوش قسمتی ثابت ہوئی سرجری کے بعد ہونے والے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ جس cyst کے درد کو سنگاپور و برطانیہ کے ڈاکٹر بے ضرر یا 99 فیصد بے ضرر کہہ رہے وہ درحقیقت کینسر تھا۔ یقیناً اب انہیں فالو اپ علاج کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ دوسرے ڈاکٹروں کی اجتماعی آراء پر عمل کرتے تو آج شاید صورتحال انتہائی گھمبیر ہوتی ۔

اسٹیم سیل = (خلیہ بنیادی)
‏Knee cartilage = گھٹنے کے جوڑوں کے درمیان لیسدار مادے کا مقام
بشکریہ، (ونیسا لِم) چینل نیوز ایشیا

Comments

Avatar photo

اعظم علی

اعظم علی سنگاپور میں مقیم ہیں۔ آئی ٹی بزنس سے وابستگی ہے۔ پاکستانی سیاست ، بین الاقوامی تعلقات اور ٹیکنالوجی کے امور پر گہری نظر ہے. غیرجانبداری سے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں. ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔

Click here to post a comment