قدامت پرستی اور جدت پرستی دو انتہائیں ہیں۔جو قدامت پرست ہیں اُن کے نزدیک جو بھی قدیم ہےوہ قابلِ یقین،قابلِ بھروسا ،قابلِ اعتبار اور لائقِ اعتنا ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے،جبکہ جدید کووہ سمّ قاتل سمجھتے ہیں۔دوسری انتہا پر جدت پرست ہیں،جن کی نظرمیں جو بھی نیا اور جدید ہے وہ صحیح ہے او رجوبھی قدیم ہے وہ بُرا،غلط،قابلِ مذمت،لائقِ ترک اور فضول ہے۔ہم نے ان دونوں نظریات کودوانتہاؤں سے اس لیے تعبیرکیاہے کہ نہ پرقدیم اچھاہے اور نہ ہر جدید بُراہے۔
وکی پیڈیامیں قدامت پرستی یا قدامت پسندی کی یہ تعریف کی گئی ہے:قدامت پرستی یا قدامت پسندی ایک سیاسی اور سماجی فلسفہ ہے جو روایتی رسوم و رواج کو برقرار رکھنے اور ان کی حمایت کو فروغ دیتا ہے۔ قدامت پرستی کی پیروی کرنے والوں کو قدامت پرست یا روایت پرست کہا جاتا ہے۔
قدیم پُرانے کوکہتے ہیں ،کیاہرپُرانا نظریہ قابلِ تقلید ہوسکتاہے؟یونانی فلاسفہ کوئی آج کی پیداوار تھے؟اللہ تعالیٰ کی قدرت کاانکار کرکے خُدائی اختیارات میں نقب زنی کی کوشش کرنے والے سائنس دان کیادورِجدید کے لوگ تھے،جن کوسزا دینے بلکہ مزا چکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نےہلاکووچنگیزکو قہرِ الٰہی بناکر بھیجا۔کیا مسلم وزیرہوتے ہوئے مسلم حکومت کے خلاف غیروں کو راہ دینے کے لیے اُن کی جاسوسی کرنے والے نصیرالدین طوسی،ابن علقمی،میر جعفر ومیرصادق کوئی آج کے لوگ تھے؟کیا خلافتِ عثمانیہ کے خلاف استعماری قوتوں کا دست وبازو بننے والا شریف حسین آج کاآدمی تھا؟یہ توچند نمونے ہیں،آپ سوچتے جائیے اور اپنے آپ سے سوال کرتے جائیے۔یہ اُن لوگوں کی بات کی جارہی ہے جو مسلمان کہلاتے تھے،منافقین اور مشرکین کی بات کی جارہی ہےنہ ملحدین کی۔پھربتائیے کہ ہر قدیم کیسے اچھاہوسکتاہے؟
اگریہ کہاجائے کہ قدیم میں خیرغالب ہے تواس کا اطلاق بھی پر قدیم پر کرنا مشکل ہے ۔تین زمانے ہیں زمانہ نبوتﷺ ،زمانہ صحابہ کرام ؓ اور زمانہ تابعین جن میں خیر کے غلبے کاانکار نہیں کیا جاسکتا،ان کے علاوہ کسی اورزمانے کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا شاید بے دلیل ہویا زیادہ سے زیادہ تابعین کے شاگردوں یعنی تبع تابعین کااستثنا کرلیں۔خلاصہ یہ کہ ہر قدیم اچھانہیں،اس میں اچھائی مشروط ہے ایمان کے ساتھ اور دوسری شرط ہم نے عنوان میں لگائی ہے:قدیم صالح ،ایمان بھی ہو اور صالحیت بھی ہو۔مذکورہ بالا طبقات،جن کاہم نے تمثیلاًذکر کیاہے،اگر مسلمان مان بھی لیے جائیں تواِن میں صالحیت کی شرط مفقود ہے۔قدیم کے ساتھ صالح کی شرط میں ایمان کی شرط خود بخود داخل ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر صالحیت کاتصور نہیں کیا جاسکتا۔قدامت پرستی کواسی لیے ہم نے ایک انتہااور قدامت پرستوں کوانتہاپسند(Extremists)قراردیاہے،کیونکہ مطلق قدیم کواچھاکہنا محل ِ نظرہے اوراس پراصرار کرناکسی تعصب کا شاخسانہ۔
اگر ہر پرانی چیز پراصرار کرنا کسی تعصب کا شاخسانہ ہےتو ہر نئی چیز کو آنکھیں بند کر کے قبول کرنا صرف فکری دیوالیہ پن!اس لیے ہم نے کہاتھاکہ قدامت پرستی ایک انتہا ہےتو جدت پرستی دوسری انتہا،اول الذکر کئ نزدیک قدیم ہی مطلق خیر ہےاورثانی الذکر کے مطابق جدیدہی مطلق راہ نجات۔جو جدت پرست ہیں، ان کے نزدیک جو بھی نیا ہے وہی درست، قابلِ قبول، قابلِ عمل اوردرخشاں حال اورروشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ماضی پر وہ منہ چھپائے پھرتے ہیں اور ان کا بس چلے تو اپنے آباء واجداد کا بھی اس بنیا دپر انکار کربیٹھیں کہ وہ قدیم ہیں اور جو قدیم ہے، وہ ان کی نظر میں پچھڑاپن، جہالت، تاریکی اور ترقی کی راہ میں حائل ایک روڑا اور ایک رکاوٹ ہے۔
یہ سوچ نہ صرف علم و عقل کے خلاف ہے، بلکہ انسانی تجربے اور تاریخ کے بھی منافی ہے۔کیا جدید صرف اس لیے درست ہے کہ وہ نیا ہے؟تو پھر فحاشی، عریانی، خاندانی نظام کا انہدام، الحاد، مادہ پرستی اور روحانیت سے دوری بھی تو جدید "رجحانات" ہیں ،کیا یہ بھی قابلِ تقلید ہیں؟کیا وہ سائنسی ایجادات جنھوں نے انسان کو رب سے دور، لیکن مشینوں کے قریب کیا،کیا وہ بھی محض اس بنا پر قابل برداشت ہیں کہ وہ جدی دہیں؟
یاد رکھیے!ہر نیا "اچھا" نہیں،اور ہر "پرانا" برا نہیں۔فکر کا معیار نیا یا پرانا ہونا نہیں، بلکہ حق، صداقت، افادیت اور روحانی و اخلاقی خیر ہے،اس کسوٹی پر قدیم پورا اترے تو وہ بھی ٹھیک ہے اور جدید پورا اترے تو وہ بھی ٹھیک ،اور جو پورا نہ اترے،قدامت وجدت سے قطع نظر،وہ غلط ہے۔نہ یہ درست ہے کہ ہر اولڈ گولڈ ہوتاہے اور نہ نئی تہذیب کا ہر انڈا گندا ہوتاہے ۔
اگر پرانے میں ایمان و صالحیت ہو تو وہی مشعلِ راہ اوراگر نئے میں الحاد و فساد ہو تو وہی گمراہی کی راہ!قدامت پرستی ہو یا جدت پرستی ،دونوں تعصب وعصبیت اور ناپختگی نیز بیجا مرعوبیت کا نتیجہ ہیں۔یہ سوچیں یہ سوچ اپنی جڑوں سے کٹنے اور دوسروں کے سائے میں جینے کا راستہ دیتی ہیں،جو خودی کے لیے موت سے کم نہیں اور قوموں کے عروج کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا ہے۔
یہ وجوہات ہیں،جن کی بنا پر قدیم کے ساتھ صالح کی قید لگائی گئی کہ وہ قدیم جو دنیوی واخروی فوز وفلاح کاضامن اور رب رسول کی منشا کے مطابق ہو،وہ خیر ہی خیر ہے ،اس وجہ سے نہیں کہ وہ قدیم ہے،بلکہ اس وجہ سے کہ وہ قدیم کے ساتھ ساتھ صالح بھی ہے۔اسی طرح جدیدکے ساتھ نافع کی قید لگائی گئی،یاد رہے کہ جدید کے ساتھ بھی صالحیت کی قید ملحوظ ہے ،کیونکہ جو صالحیت سے خالی ہے وہ تو ہے ہی قابلِ ترک،البتہ جدید کے لیے صالح ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نافع بھی ہو۔نفع کیا ہے؟نفع کون سا معتبر ہے؟اس کا فیصلہ ہم شریعت ،دور حاضر کے تقاضوں،مستقبل کے چیلنجز اور جدید ذرائع ووسائل کے ثمرات دیکھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔
ان سطور کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ دینی اداروں میں جب عصری تعلیم یا کسی اور عصری سرگرمی کا آغاز ہوتاہے تو بعض قدامت پرستوں کو ہر جدید کے پیچھے شر،فساد اور اخروی نقصان نظر آنے لگتاہے،وہ اندیشہ ہائے دور دراز میں نہ صرف خود مبتلا ہوتے ہیں،بلکہ دوسروں کو بھی مبتلا کرتے ہیں ۔حالانکہ ہمارے دین نے زمانے کے تقاضوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا ۔کیا صحابہ کرام ؓ کو نبی اکرم ﷺ نےجدید فنون سپہ گری سیکھنے کی ترغیب نہیں دی تھی؟کیا درجن بھر صحابہ کرام ؓ کو دوسری اقوام وملل کی زبانیں سکھنے پر مامور نہ فرمایا تھا؟جو زمانے کی دوڑ کے ساتھ نہ چلا کیا اس کی قدامت پسندی اسے زمانے کے تھپیڑوں سے بچالے گی؟یہ تغیرات کا جہاں ہے،دمادم صدائے فن فیکون گوبج رہی ہے،اس پر کان دھرنا ہی دانش مندی ہے،قدامت پرستی میں اس قدر اندھا ہوجانا کہ جدید کااچھا بھی برا نطر آئے دین نہیں،تعصب ،عصبیت ،انتہا پسندی اور جہالت ہے۔
تبصرہ لکھیے