ہوم << ینگ رائٹرز کانفرنس - محمد قاسم مغیرہ

ینگ رائٹرز کانفرنس - محمد قاسم مغیرہ

گورنمنٹ گریجوایٹ کالج فار ویمن سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ درخشاں تعلیمی روایات کا حامل ایک ادارہ ہے۔ مورخہ 22 اپریل 2025 کو کالج میں "ینگ رائٹرز ملٹی لنگول کانفرنس" کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ کچھ دن قبل موصول ہوچکا تھا۔ تقریب میں شرکت کے لیے پہنچا تو کالج کی مؤدب طالبات نے استقبال کیا۔

میڈم حنا رفیق نے انتہائی شستہ انگریزی لہجے میں کمپیئرنگ کے فرائض سرانجام دئیے۔ میڈم حمیرا کی اردو اور میڈم گلریز ہاشم کی پنجابی کمپیئرنگ نے تقریب کی رعنائی میں اضافہ کیا۔ میڈم حنا رفیق اور میڈم سعدیہ عالم اس تقریب کی چیف آرگنائزرز تھیں۔

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ تلاوت کے بعد نعت پیش کی گئی۔ بعد ازاں پروفیسر لالہ رخ بخاری نے خطاب کیا۔ پروفیسر صاحبہ کا اردو لہجہ، شائستگی اور الفاظ کا چناؤ انتہائی متاثر کن تھے۔ انسانی زندگی میں ادب کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ پروفیسر لالہ رخ بخاری نے نئے لکھنے والوں کو قیمتی تجاویز سے نوازا۔ پروفیسر صاحبہ کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ ان کی گفت گو ، ادبیت ، علمیت اور لہجہ ان کے اس عظیم ورثے کی غمازی کر رہے تھے۔

ڈاکٹر حمیرا ارشاد ( صدر شعبہ اردو ، گورنمنٹ گریجوایٹ کالج فار ویمن وحدت روڈ لاہور) اس تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی پر لاہور سے تشریف لائیں۔ انہوں نے شاعری کی اہمیت پر ایک مقالہ پیش کیا۔ مقالے کی ایک ایک سطر گواہی دے رہی تھی کہ اس کے لکھنے میں بحر علم کی کتنی غواصی اور دنیا کی عظیم شاعری کے کتنے پوشیدہ گوشوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو، شبیر بٹ نے پنجابی میں خطاب کرکے حاضرین کے دل موہ لیے۔ ان کی پنجابی نظم " ماں میں تینوں سکھ دینے سن" حاضرین کو اشک بار کرگئی۔
ڈاکٹر عادلہ حسین نے انتہائی شستہ انگریزی لہجے میں ادب کی اہمیت پر زور دیا۔
ڈاکٹر احسان اللہ باجوہ نے پنجابی زبان، پنجابی شاعری اور پنجابی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ڈاکٹر اجمل خان نے مسئلہ فلسطین کی تاریخ ، فلسطین کے مزاحمتی ادب اور انسانی زندگی میں مزاحمت کی اہمیت پر گفت گو کی۔ ڈاکٹر صاحب کا خطاب علمیت ، تحقیق اور انگریزی زبان پر کامل دست رس کا آئینہ دار تھا۔

تقریب کے دوسرے مرحلے میں نوجوان لکھاریوں کو اپنی نگارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ مریم سجاد نے اپنی انگریزی شاعری پیش کی۔ مریم سجاد کے بعد فہمیدہ صدف نے Silent Sufferers کے عنوان سے اپنی غیر افسانوی نثر پڑھی۔ فہمیدہ کی اس تخلیق کا مرکزی خیال وہ لوگ ہیں جن کے درد کو زباں نہیں ملتی، جو چپ چاپ درد سہتے چلے جاتے ہیں، جو اپنی ابتلاء و آزمائش کو تبسم کے پردے میں چھپا لیتے ہیں۔
بہ قول مصطفیٰ زیدی
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

زمرد خان نے اپنی تخلیق Feeling not to Feel Seems Right پیش کی۔ اس تحریر میں اس نوجوان لکھاری نے طاقت اور عزم و ہمت کا پیغام دیا۔
مائدہ آصف نے اپنی کہانی Through the Lense of Faith پڑھ کر سنائی۔ امید، بلند ہمتی اور ایمان کی مضبوطی کا درس دیتی یہ کہانی اس کم عمر لکھاری کی سوچ کی پختگی اور بلند خیالی کی گواہی دیتی ہے۔
زینب طاہر نے اپنی تحریر میں بدعنوانی ، انسان کی بے لگام خواہشات اور دولت کی ہوس کو موضوع بناکر یہ ثابت کیا کہ وہ انسانی نفسیات اور معاشرتی مسائل کا گہرا شعور رکھتی ہیں۔
نور الہدیٰ نے Magical realism پر مبنی ایک کہانی پیش کی۔ شہزادی مریم نے Sacrifice اور اریبہ مسعود نے Dinner کے عنوان سے تحریر کردہ کہانیاں پیش کیں۔

طالبات کی ان تخلیقات میں خواتین کے حقوق کی بازگشت بھی سنائی دی۔ خواتین کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی کچھ تخلیق کاروں کا موضوع سخن بنیں۔
یہ تقریب ہر اعتبار سے شان دار تھی۔ نظم و ضبط ، حسن ترتیب اور حسن اہتمام - ہر پہلو قابل تعریف۔

اس کانفرنس کے انعقاد سے نوجوان تخلیق کاروں کو اپنی نگارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ یہ پلیٹ فارم یقیناً ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ نوجوان تخلیق کار عصر حاضر کے مسائل سے لاتعلق نہیں ہیں بل کہ ان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے حقوق کا مکمل شعور ہے۔ نوجوان لکھاری نظم، کہانی اور غیر افسانوی نثر سمیت ہر صنف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کانفرنس کا انعقاد اس اعتبار سے بھی خوش آئند ہے کہ اس میں تین زبانوں انگلش ، اردو اور پنجابی کے نوجوان لکھاریوں کو اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع ملا۔ پنجاب میں رہنے والے ہر طالب علم کا ان تینوں زبانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ انگریزی اور اردو کی طرح پنجابی میں تخلیق کیے گئے ادب کو بھی بلاشبہ دنیا کے بڑے ادب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں کہ پنجابی بولنا ناخواندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاں پنجابی بولنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، پنجابی زبان و ادب کا فروغ انتہائی ضروری ہے۔

گھٹن اور جبر کے اس ماحول میں ایسی کانفرنس کا انعقاد تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ کسی کہنے والے کو اگر سننے والے مل جائیں تو اس کی خوشی کا کیا عالم ہوتا ہے ، یہ صرف وہی جانتا ہے۔ تحریر اور تقریر کے لیے ایک پلیٹ فارم مل جانا کتھارسس کا ذریعہ بن کر انسان کو باطنی راحت عطا کرتا ہے۔ امریکی شاعرہ مایا اینجلو کا ایک قول یاد آرہا ہے
" There is no greater agony than bearing an untold story inside you."

نوجوان لکھاریوں کے لیے اس کثیر اللسانی کانفرنس کا انعقاد اسسٹنٹ پروفیسر حنا رفیق کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ برس قبل اسی کالج میں سکرپٹ رائٹنگ پر ایک ورک شاپ کا انعقاد بھی میڈم حنا رفیق کی بدولت ممکن ہوا۔نوجوان لکھاریوں کے لیے اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں کالج کی پرنسپل ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان بھی خصوصی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ میڈم حنا رفیق نے کانفرنس کے انعقاد کی تجویز جب ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے نہ صرف اس کا خیر مقدم کیا بل کہ انتہائی نظم و ضبط سے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ اردو ،پنجابی اور انگریزی کے نوجوان لکھاریوں کو یہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کا اچھوتا خیال متعارف کرانے والی متحرک ٹیم نصیر ترابی کے اس شعر کی صورت میں تعریف کی مستحق ہیں۔
نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں، میں نصیرؔ صرف نصیر ہوں
مِرے حرفِ ظرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment