جب سے برصغیر کے افق پر آزادی کا آفتاب طلوع ہوا ہے، تب سے ہی پاکستان و ہندوستان کی کشمکش ایک نہ ختم ہونے والا مرثیہ بن چکی ہے۔ ہندوستان، جو اپنے حجم، آبادی اور معیشت کے ترازو میں خود کو طاؤس و رباب سمجھتا ہے، درحقیقت خوف، شکست خوردگی اور تاریخی ندامت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ آج بھارت کا مجموعی قومی پیداوار تقریباً 3.73 ٹریلین امریکی ڈالر پر جا پہنچا ہے اور اس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کے ہنگام میں سانس لے رہی ہے، جب کہ پاکستان، جس کی معیشت سیاسی ہچکولوں، بدانتظامیوں اور بین الاقوامی دباؤ کی آندھیوں میں لرزتی رہی، محض 341 ارب ڈالر کے حجم پر ایستادہ ہے اور بائیس کروڑ جانبازوں کا مسکن ہے۔
دفاعی بجٹ میں بھی ایک ظاہری تفاوت ہے؛ بھارت ہر برس 83 ارب ڈالر اپنے اسلحہ خانوں کی نذر کرتا ہے جبکہ پاکستان فقط 7.5 ارب ڈالر کے مختصر بجٹ میں اپنے قلعۂ حریت کی دیواروں کو مستحکم رکھے ہوئے ہے۔ مگر تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ نہ کبھی افواج کی کثرت، نہ زر کا انبار، اور نہ ہی آبادی کا ہجوم فیصلہ کن فتوحات کا ضامن ہوا ہے۔ بدر کے تپتے ریگزاروں سے لے کر قادسیہ کے خونیں میدانوں تک، تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ فتح ان کے قدم چومتی ہے جن کے دلوں میں عزمِ صمیم کی شمع فروزاں ہو اور جن کے ہاتھوں میں حق کی شمشیر ہو۔
ہندوستان، اپنے 32 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع رقبہ اور رنگ برنگی اقوام کے ہجوم کے باوجود، پاکستان کے مقابلے میں اس قدر مرعوب و مضطرب ہے کہ ہر چند ماہ بعد جنگی للکاروں کی بھونڈی گونج سے اپنے داخلی زخموں پر مرہم رکھنے کی ناکام سعی کرتا ہے۔ پاکستان کا رقبہ اگرچہ 8 لاکھ 81 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے، مگر اس کی خاک میں وہ غیرت کا نم ہے جو غزوۂ موتہ میں تین تین علمبرداروں کے پے در پے شہید ہونے کے باوجود لشکرِ اسلام کو متزلزل نہ کر سکا تھا۔ پاکستان اگرچہ سیاسی عدم استحکام، معاشی ناہمواری اور عالمی دباؤ کے پتھریلے راستوں پر گرتا سنبھلتا رہا ہے، مگر اس کی عسکری ریڑھ کی ہڈی اس وقت فولاد کی مانند سخت ہے، اور اس کا سینہ ایٹمی توانائی کے جوہر سے لبریز ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی شبانہ روز محنت، ان کی غیر متزلزل حب الوطنی اور ان کی سائنس کے میدان میں سرفروشی نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچایا کہ آج، بدترین معاشی بدحالی کے باوجود، ہر پاکستانی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتا ہے کہ ہم کوئی ترنوالہ نہیں۔ کیا ہندوستان بھول گیا جب 1998ء میں چاغی کے پہاڑوں نے لرزتے ہوئے گواہی دی کہ پاکستان اب ایٹمی قوت بن چکا ہے؟ کیا وہ وقت اس کے حافظے سے محو ہو چکا جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے نشے میں جھوم کر پاکستان کو دھمکیاں دیں اور پھر چند دنوں میں چاغی کے سفید ہوتے پہاڑوں نے اس کے خوابوں کو راکھ کر دیا؟
تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ 1965ء کی رات جب بھارت نے رات کی تاریکی میں لاہور پر حملے کی جسارت کی تو پاکستانی قوم کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی وہ داستان آج بھی لہو گرما دیتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے لشکر کو روک لیا۔ 1971ء کی سانحاتی شکست کے بعد بھی پاکستان نے کبھی اپنے دفاعی عزائم کو سرد نہ ہونے دیا، بلکہ اسی شکست کی خاکستر سے ایک ایسی قوم ابھری جس نے دنیا کے سامنے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر کے ابدی بقا کی بنیاد رکھی۔
آج بھارت کی جنگی دھمکیاں درحقیقت داخلی انتشار، بڑھتی ہوئی اقلیت دشمنی، معاشرتی انارکی، کسانوں کی بغاوتوں، اور مقبوضہ کشمیر کی سسکتی تحریکِ حریت سے توجہ ہٹانے کا بچگانہ حربہ ہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان سے جنگ مول لینا صرف ایک فوجی محاذ آرائی نہیں بلکہ ایٹمی تباہی کا ننگا رقص ہوگا۔ پاکستان کی حکمتِ عملی سرفروشی پر مبنی ہے؛ یہ ملک اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنی ارضِ مقدس کا دفاع کرے گا، چاہے اس کے لئے اپنے شہروں کو راکھ اور کھیتوں کو خاک بنا دینا ہی کیوں نہ پڑے۔
کیا بھارت بھول چکا ہے کہ جنگِ کارگل میں پاکستان کے جانبازوں نے قلیل وسائل کے باوجود بلندیوں پر بیٹھے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے؟ کیا اس نے سیاچن کے بے رحم گلیشیئرز پر پاکستانی جوانوں کی جرأت و شجاعت کو نظر انداز کر دیا ہے، جو خون جما دینے والی سردیوں میں بھی اپنی دھرتی کا علم تھامے ہوئے ہیں؟
پاکستان کی مسلح افواج صرف اسلحے یا ساز و سامان پر انحصار نہیں کرتیں؛ ان کی اصل قوت وہ ناقابلِ تسخیر جذبۂ ایمانی ہے جو ہر پاکستانی سپاہی کے سینے میں دہک رہا ہے۔ ہم نے اپنے وطن کو صرف جغرافیہ نہیں سمجھا بلکہ اسے اپنی روح کا حصہ مانا ہے، اور اپنی روح کے تحفظ کے لیے ہم ہر حد تک جا سکتے ہیں۔
لہٰذا، بھارت اگر یہ گمان کرتا ہے کہ محض اپنی معاشی برتری اور عسکری سازوسامان کی کثرت سے وہ پاکستان کو زیر کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ جنگیں صرف بارود اور توپ و تفنگ سے نہیں جیتی جاتیں؛ جنگیں دلوں کے عزم اور قوموں کی غیرت سے جیتی جاتی ہیں۔ اور پاکستان، خدائے ذوالجلال کے فضل سے، آج بھی وہی قوم ہے جو بدر کے مجاہدین کا وارث ہے اور جس کے رگ و پے میں حطین کے فاتحین کا خون دوڑ رہا ہے۔
ہم نہ جنگ کے خواہاں ہیں اور نہ بدمستی کے قائل، مگر اگر وقت نے للکارا تو دشمن کو وہ انجام دکھائیں گے کہ تاریخ بھی کانپ اٹھے گی۔ پاکستان کی سرزمین امن کی متمنی ہے، مگر اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنی حرمت کی محافظ بھی۔
تبصرہ لکھیے