ہوم << خوف نہیں انصاف - عدنان فاروقی

خوف نہیں انصاف - عدنان فاروقی

قومیں انصاف کی بنیاد پر ابھرتی ہیں، نہ کہ خوف کی آڑ میں۔ آج کا پاکستان ایک خودساختہ خوف کی گرفت میں ہے، جو بالخصوص اُن ہاتھوں کی پیداوار ہے جو حقیقت میں اقتدار کے مالک ہیں۔ یہ خوف کسی دشمن کے حملے یا قدرتی آفات سے نہیں، بلکہ ایک ایسا خاموش اور زہریلا کانٹا ہے جو ہر شہری کی سوچ، بات چیت اور عمل کو متاثر کر رہا ہے۔ ہر آواز، ہر اختلاف کو شکوک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، اور اس شکوک کی بنیاد وہ بیانیہ ہے جو طاقتوروں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا ہے۔

سوشل میڈیا، جو کبھی آزادی اظہار کا ذریعہ تھا، اب نگرانی اور ترہیب کا ایک نیا ہتھیار بن چکا ہے۔ ایک ایک جملہ، ایک ایک تصویر اس نظر سے دیکھی جاتی ہے کہ آیا یہ "ریاست کے خلاف" تو نہیں؟ اختلاف رائے کو غداری کے مترادف قرار دیا جا چکا ہے، اور سوال کرنے والے کی آواز کو کچلنے کی مکمل اجازت دے دی گئی ہے۔

یہ خوف کی ثقافت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام پر مسلط کی گئی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو بے حس، مایوس اور خاموش رکھنا ہے تاکہ اقتدار کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ مگر اس خاموشی کے پیچھے ایک خطرناک زلزلہ ہے، حيثیت سے بےخبر، ذہنی دباؤ اور ناانصافی نے عوام کو بے آرامی کے مارے بنا دیا ہے۔ بے چینی اب نفرت میں بدل رہی ہے، اور یہ نفرت سماجی تعلقات میں زہر گھول رہی ہے۔

ہمارے ہاں قیادت کی سطح روز افزوں گر رہی ہے۔ اصول، شرافت اور کردار اب کمزوروں کی علامت بن چکے ہیں، جبکہ طاقت کی علامت بننے کے لیے دھونس اور توہین کو گلے لگایا جا رہا ہے۔ یہ زوال قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، کیونکہ جب رہنما خود ہی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، تو عوام بھی قانون کی حیثیت کو نظرانداز کرنے لگتے ہیں۔

دو ہزار چوبیس نے ثابت کر دیا کہ تبدیلی کی طلب جوں کی توں زندہ ہے۔ عوام نے اعتماد کے ساتھ ووٹ دیا لیکن یہ امید طاقتوروں کے ہاتھوں مجروح ہوئی۔ 8 فروری کے انتخابات ایک دھوکہ بن کر رہ گئے، جہاں عوام کا مینڈیٹ چھین لیا گیا اور ایسی حکومت مسلط کر دی گئی جسے نہ عوامی حمایت حاصل تھی اور نہ اخلاقی بنیادیں۔

ہمیں اس سیاسی جمود کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو احساس، دردمندی اور سیاسی بصیرت پر مشتمل ہو۔ قومیں خود کو بندوق کے ذریعے نہیں، بلکہ اعتماد اور عزت سے جوڑتی ہیں۔

بلوچستان آج ایک بڑا چیلنج ہے۔ جبکہ ریاست ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو زنجیروں میں جکڑتی ہے، جب جوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے اور ان کے سوالات کا جواب گولی سے دیا جاتا ہے، تو یہ ریاست کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ مہرنگ بلوچ جیسے نوجوان صرف بلوچستان کے لیے نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک آئینہ بن چکے ہیں۔ اگر ہم نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم نہ رکھا، تو دشمن ان زخموں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرے گا۔

بلوچ عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر وہ عزت و احترام کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔ صوبے کے وسائل اُس کے عوام کا حق ہیں، اور وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انہیں ان کا جائز حق دے، نہ کہ ان پر قبضہ کر کے محرومی کو بڑھائے۔

حقیقی سوال یہ ہے: کیا ریاست ایک ایسے راستے پر واپس آ سکتی ہے جہاں آئین، قانون اور انصاف کی برتری ہو؟ کیا ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے سکتے ہیں جہاں شہری محض وفاداری کے بل پر نہیں، بلکہ اپنے حقوق کے قائل ہو کر عزت دار زندگی گزار سکیں؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آئین ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں انسانی حقوق کی پامالی نہ کرے۔

خوف کا مقابلہ طاقت نہیں، بلکہ انصاف سے کیا جا سکتا ہے۔ جبر کو صرف قانون، شفافیت اور سچائی شکست دے سکتی ہیں۔ جب ریاست خود کو قانون کی پاسداری کے لیے پابند کر لے، جب وہ اختلاف کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھ لے، تب ہی ہم اُس پاکستان کا خواب دیکھ سکیں گے جس کی بنیاد قائداعظم نے رکھی۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم عملی اقدامات کریں، خوف اور سوداگری کے بغیر۔ اصل طاقت ہمیں انصاف کی جڑوں میں ملے گی، جس کی بنیاد پر ہم ایک نئی تاریخ رقم کر سکیں گے، جہاں ہر شہری کی آواز کو سنا جائے، اور حقیقی تبدیلی کی سمت ہمارا مقدر بنے۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment