پہلی بات ان لوگوں کے لیے، جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دشمن کی فوج کی کامیابیوں کے قصے سناتے ہیں، اور اپنی فوج پر تنقید کے ذریعہ دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ حضور! یہ جنگ کا زمانہ ہے، کی بورڈ کو توپ نہ بنائیں اور ٹویٹ کو تلوار مت سمجھیں۔
یہ ساری صورتحال دیکھ کر پہلی جنگِ عظیم کے دن یاد آتے ہیں ،جب عرب بھائیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کی ریل کی پٹڑیاں اکھیڑ کر دشمن کی راہ ہموار کی تھی، اور سمجھے تھے کہ ترک تو "ظالم" ہیں، انگریز "نجات دہندہ" ہیں۔ پھر وہی نجات دہندہ صدیوں سے انہیں نجات ہی دلا رہا ہے – مگر صرف زمین، اختیار، اور غیرت سے!
سلطنت گئی، فلسطین ہاتھ سے گیا، اور عرب آج بھی ہاتھ باندھے اقوامِ متحدہ کی قطار میں کھڑے ہیں۔
اب ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ "دشمن کی فوج بڑی پروفیشنل ہے" جیسے نعرے لگا کر اپنی ہی دیواروں میں دراڑیں ڈالنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ بھائی! اگر دشمن اتنا ہی اچھا ہے تو ذرا اس کے کیمپ میں جا کر دکھا دو، پھر پتہ چلے گا کہ "ظلم کیسا ہوتا ہے"۔ اپنوں سے لاکھ شکایت ہو، پر اپنے اپنے ہوتے ہیں، اور ان سے اختلاف بات چیت سے طے ہو سکتا ہے، نہ کہ دشمن کے گن گانے سے۔
اور اگر کسی کو شک ہے، تو بنگال یاد کر لیں۔ بھارتی فوج آزادی کی دیوی بنی، اور کچھ ہی عرصے میں "مال کی بوری" لے کر بنگلہ دیش کی گلیوں میں گھومنے لگی۔ یعنی آزادی کے بعد بھی آزادی نہ ملی!
اب آتے ہیں دوسری طرف…
ہم جانتے ہیں۔ کہ فوج قوم کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ تارا مخالف سمت چمکنے لگے، تو روشنی کی بجائے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ فوج کا اصل محاذ سرحد ہوتا ہے، نہ کہ اپنا ہی دارالحکومت۔ جب عوام پیچھے دیوار بن کر کھڑے ہوں اور فوج سامنے آ جائے، تو افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ رخ کسی نے بدلا ہے – عوام نے نہیں۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے قربانی کی۔ صرف جان دینے کی نہیں، انا اور اقتدار چھوڑنے کی بھی۔
اب سوشل میڈیا کی بات ہو ہی گئی ہے تو یاد دلادیں کہ دشمن نے اس پر اربوں خرچ کیے ہیں۔ یہ صرف تفریح کا میدان نہیں، یہ نئی جنگ کا محاذ ہے۔ لہٰذا ذرا ہوش سے "فالو" کریں، اور احتیاط سے "شیئر"۔
اور ہاں! قوم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج ہم سینہ ٹھونک کر ایٹمی طاقت کہلاتے ہیں، تو اس میں جہاں محترم ڈاکٹر عبد القدیر خان ( سلام ہے جو آپ نے کیا اور آپ کے ساتھ کیا گیا بھلایا نہیں جا سکتا ۔۔)اور افواجِ پاکستان کا کردار ہے، وہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کا بھی بھرپور کردار رہا، جنہوں نے دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کیے۔ تو خراجِ تحسین بنتا ہے جناب!
اور ہاں… یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ایک خاص فن ہے، جو سابق وزیراعظم، اصف غفور اور فیض حمید جیسے ماہر فنکاروں کے پاس تھا۔اور دو منٹ کے خاموشی اختیار کرنے سے مقاصد حاصل کرلیے ۔
اب کے جو آئے ہیں — جنرل حافظ عاصم منیر — ان کے انداز میں خاموشی، تحمل، اور حکمت ہے۔ وہ ٹویٹ نہیں کرتے، کام کرتے ہیں۔ اور آج جب موجودہ حکومت نے کل قومی پالیسی کا اعلان کیا، تو لگا کہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی، لیکن ریاست اور عوام ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ سلام ہے جنرل حافظ عاصم منیر کو کہ انہوں نے تحمل، وقار اور سنجیدگی سے ادارے کو وقار دیا، اور خراجِ تحسین موجودہ حکومت کو کہ انہوں نے قومی مفاد میں ایک واضح سمت دینے کی کوشش کی۔ یہی وقت ہے کہ ہم بطور قوم متحد ہوں، ورنہ دشمن ہمیں ہر میدان میں بانٹنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔
تبصرہ لکھیے