کہتے ہیں کہ جب حکمران عیاش پرست ہو جائیں، آئین و قانون ختم ہو جائے اور ادارے بے لگام ہو جائیں، تو عوام ظلم و ناانصافی، عدم تحفظ اور غربت و بے روزگاری کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔ ان کے درد کا درمان کوئی نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جب کہ حکمران تحت و تاج اور لاؤ لشکر سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ انھیں زندگی کی ہر آسائش میسر ہوتی ہے۔ اور غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترس جاتے ہیں۔ پاکستان بد قسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں غربت و بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام، ناقص نظام عدل، کرپٹ حکمران، ناقص منصوبہ بندی اور معیاری تعلیم کا نہ ہونا، پاکستان میں غربت و بے روزگاری کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ اور اس کے لیے عوام کا باشعور ہونا اور ان کی رائے کا احترام کرنا اٹل ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی اتار چڑھاؤ پاکستانی عوام کے لیے ایک ایسا گھاؤ بن چکا ہے، جو رفتہ رفتہ ان کی خوش حال زندگیاں نگل رہا ہے۔ غربت و بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ مزدور دیہاڑی لگانے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ ان کے خالی جیب کوئی خواب دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ زندگی جی نہیں رہے ہوتے بلکہ قید کی مانند گزار رہے ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ لیکن ریاست کو کسی کی آہ تک سنائی نہیں دیتی۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ Poverty projections for Pakistan کے مطابق، '2024ء میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فی صد تک پہنچ گئی، جو کہ سال 2023ء کے مقابلے میں سات فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہے۔ اس اضافے کے نتیجے میں تقریباً 13 ملین افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے'۔
لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے عدلیہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ان کے حقوق کی محافظ و نگہبان ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں عدلیہ کا نظام سراہے جانے کے قابل نہیں۔ یہاں طاقت ور کو لمحوں میں کلین چٹ دی جاتی ہے، جب کہ کمزور کو برسوں کورٹ کچہری کے در پر دستک دینا پڑتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس بھاگ دوڑ کے باوجود وہ اپنے حق سے محروم رہتا ہے۔ چناں چہ محنت کش طبقہ اپنے مسائل کے حل اور جائز حقوق کے مطالبات کے لیے کسی عدلیہ کا رجوع نہیں کرتا کیوں کہ وہاں انصاف کے ترازو کا پلڑا طاقت کی جانب جھکتا ہے نہ کہ سچائی کی طرف۔ اسی المیے کا ذکر کرتے ہوئے راحت اندوری نے کیا خوب کہاـــ
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز عادل حکمران ہیں۔ جو آئین و قانون کو اپنی خواہشات سے مقدم رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان کو شاید ہی کوئی سچا حکمران نصیب ہوا۔ ہر نئی آنے والی گورنمنٹ گزشتہ حکومت کی پالیسیاں رد کر دیتی ہے یا ان میں بلا کی تبدیلیاں کر دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ عوام کے حق میں ہوں یا نہ ہوں۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی مزدور کام کی تلاش میں تپتی زمین پر رُل رہے ہیں لیکن اختیار رکھنے والوں کو ٹس سے مس نہیں۔ وہ ریڈ کارپٹ کے بغیر زمین پر قدم نہیں رکھتے جب کہ غریب عوام کے پاؤں میں جوتے تک نہیں۔ اشرافیہ کے جانور بھی ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں مگر دوسری طرف معصوم بچوں کے تن پر کپڑے نہیں ہوتے، انھیں جی بھر کے کھانا نہیں ملتا مگر کس سے 'گلہ کرے کوئی'۔
پاکستان کی تنزلی اور عوامی مسائل کی ایک بنیادی وجہ معیاری تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔ "ڈان نیوز" کی 10 دسمبر 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 'پاکستان میں صرف پانچ فیصد بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور قریباً 26 ملین بچے اسکول ہی نہیں جاتے'۔ آخر کیوں مزدور کا بچہ مزدوری ہی کرے گا؟ کیا اسے آگے بڑھنے کا کوئی حق نہیں؟ شاید پاکستان میں یہی بات سچ ہے کہ غریب کے بچے کو آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ کیوں کہ اگر عوام باشعور ہوں گے تو سوال کریں گے۔ جو کہ کسی بھی حکومت کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہوتا۔
مختصر یہ کہ غربت اور بے روزگاری پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہ ایک اہم رکاوٹ ہے۔ جسے عبور کرنے کے لیے جدید اور معیاری تعلیم بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ علم و تحقیق کے بغیر آگے بڑھنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کی بالادستی اور عدلیہ کا خود مختار ہونا بھی لازمی ہے۔ تاکہ طاقت ور سے کمزور کو تحفظ ملے اور عوامی نمائندے اپنے کار ہائے نمایاں کے جوب دہ ہوں۔ تاکہ پاکستان کے عوام بھی زندگی کو بھر پور طریقے سے جئیں، خواب دیکھیں اور بنا کسی رکاوٹ کے انھیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ مزدور کبھی زندگی سے دور نہ ہو بلکہ ہر پل ہر گھڑی وہ زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہو۔
تبصرہ لکھیے