مولانا عبید اللہ سندھی (۱۸۷۲-۱۹۴۴ء) دارالعلوم دیوبند میں اپنے قیام اور حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن (م ۱۹۲۰ء) کے دامن سے وابستگی کے باوجود اپنی آزادانہ راے رکھتے تھے، اور اُنہیں اِسی ’’آزاد روی‘‘ کے نتیجے میں معاصر ساتھیوں کے دباؤ تلے مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کی فضاؤں کو چھوڑنا پڑا تھا۔
دہلی میں اُنہوں نے نظارت المعارف القرآنیہ قائم کی، اور جدید تعلیم یافتہ افراد اور دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات کی مختصر سی جماعت کو قرآن مجید پڑھانا شروع کیا، (واضح رہے کہ اُس وقت مطالعۂ قرآن مروجہ مذہبی درسیات کا حصہ نہ تھا)، اُن کے قرآنی استنباط اور استخراج سے بعض متدیّن بزرگوں کو شدید اختلاف تھا، مگر عامۃ الناس ، اور بالخصوص سیاسی فکر رکھنے والے مسلم زعماء میں اُن کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ۱۹۱۵ء میں مولانا عبیداللہ سندھی کابل چلے گئے،ا ور پھر روس، ترکی اور ارضِ حجاز میں کم و بیش ۲۴برس دربدر رہے، اور کہیں انہیں آرام اور چین سے وقت گزارنے کا موقع نہ ملا۔
اِس عرصے میں اُنہوں نے پہلی عالمی جنگ میں ترکی کی ہزیمت دیکھی، مغربی استعماری سازشوں کا مشاہدہ کیا، انقلابِ روس کا جائزہ لیا، اور خلافتِ عثمانیہ کے ملبے پر مصطفی کمال اتاترک کے جدید سیکولر ترکی کو اُبھرتے ہوئے دیکھا، حتیٰ کہ پہلی عالمگیر جنگ سے کہیں زیادہ تباہ کن دوسری عالمگیر جنگ (اور اِس کے دوران میں جب برعظیم پاکستان و ہند میں آزادی کی تحریک آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تھی) کے دوران میں ۱۹۳۹ء میں واپس ہندوستان آئے۔ اُن کے اپنے بقول بیرونِ ہند کے زمانۂ قیام میں ان کے فکر و دانش میں بڑی تبدیلی آئی۔ اگرچہ وطن واپس آنے پر دھوم دھام سے اُن کا استقبال کیا گیا تھا، مگر جوں جوں اُنہوں نے اپنے بدلے ہوئے خیالات کا اظہار کیا، تحسینی جذبہ مبدّل بہ سرد ہونے لگا، حتیٰ کہ اُنہیں شدید تنقید و تردید کاسامنا کرنا پڑا۔
بیسویں صدی میںسیاسی آزادی کی تحریک نے قوم پرستانہ جذبات کو ہوا دی، اور دُنیا بھر کے حریت پسندوں کا نعرہ یہ تھا کہ ہر قوم کو آزاد رہنے کا حق حاصل ہے، اِسی طرح سرمایہ داری کے ستائے ہوئے لوگوں میں رُوس کی اشتراکیت کے بارے میں بوجوہ اچھے جذبات پیدا ہوئے، اولاً روسی اشتراکی قیادت نے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ان خفیہ معاہدوں سے پردہ اُٹھادیا تھا جو یورپ کی استعماری طاقتوں (بشمول سابق روس) نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف باہم طے کر رکھے تھے، ثانیاً اشتراکیت کے تجربے میں بعض مسلمانوں کو اسلامی مساوات اور معاشی انصاف کی جھلک دکھائی دی، اور اُن کی بے حد سادہ روی نے ان کے ذہن میں’’اشتراکیت + خدا = اسلام‘‘ کی ریاضیاتی مساوات قائم کردی تھی۔
مولانا عبید اللہ سندھی پورے اخلاص سے قومیت پرستی اور اشتراکیت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ (اِس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، یا لینن اور ٹراٹسکی کے اشتراکی فلسفے کو عالمانہ طور پر جانتے تھے، اور اِس پر اُن کا ایمان تھا۔ نہ تو اُن کے بارے میں اُن کے مخالف اہلِ قلم کی یہ راے ہے، اور نہ سوشلسٹ کارکن یہ بات تسلیم کرتے ہیں۔) برعظیم کی ہندو اور مسلم آبادی کو ایک قوم سمجھنے یا بنانے کے لیے اُنہیں وجودی تصوّف اور ویدانت میں قدر مشترک دکھائی دی، جو اُن کے خیال میں ہندووں اور مسلمانوں کو ’’ایک قوم‘‘ بنا دیتی ہے.
نیز اُن کے غور و فکر کے مطابق اسلام کی تعلیمات نے ماضی میں وطنی و تہذیبی پس منظر کے مطابق مختلف قالب اختیار کیے ہیں، اور یہی صورت مستقبل میں رہے گی، اُنہیں حجازی اور عراقی فقہاء کی سوچ اور استنباط میں وطنیت کی بنیاد پر ہی فرق دکھائی دیتا تھا، اور یوں برعظیم کے لیے وہ حجازی زاویۂ فقہ کے بجائے حنفیت کو ترجیح دیتے تھے۔ وطنی قوم پرستی اور حنفیت کے جواز کے لیے انہوں نے تاریخی شخصیات اور واقعات سے استشہاد کیا جو اُن کے فکر کے لیے تقویت کا سبب تھے، نیز اُن تمام افراد اور تحریکوں کو ہدفِ تنقید بنایا جو اِس راہ میں اُن کے خیال میں رکاوٹ ثابت ہوتی تھیں، اِسی ضمن میں جلال الدین اکبر کی سیاست اُن کے نزدیک درست دینی فکر کا نتیجہ تھی ، مگر سیّد احمد شہید کی جاری کردہ تحریکِ جہاد و اصلاح میں علماء صادق پور کی شمولیت ، اُن کے نزدیک، جہاد کی ناکامی کا باعث ثابت ہوئی۔
مولانا سندھی کے جو افکار و خیالات تھے، اُنہیں وہ شاہ ولی اللہ(م ۱۷۶۲ء)، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م ۱۸۲۴ء)اور مولانا محمد قاسم نانوتوی (م ۱۸۸۰ء)کی تحریروں پر مبنی اور انہی کا فشردہ قرار دیتے تھے۔ا ُن کے افکار و خیالات اُن کی دو چار کتابوں اور زیادہ تر مختلف اجتماعات اور نشستوں میں ان کی گفتگووں کے ذریعے عام ہوئے،ا ور کچھ اُن کی امالی کی بدولت۔ ان امالی کی ترتیب و تسوید اور تحشیہ میں مولانا نورالحق علوی (م ۱۹۵۱ء) کی مساعی بالخصوص نمایاں تھیں۔ اِس سلسلے کی پہلی قابلِ ذکر تحریر، غالباً ’’امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ تھی، جو بعض تحفظات کے ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی (م۱۹۹۷ء) نے ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ (بریلی) کے ’’شاہ ولی اللہ نمبر‘‘ (بابت رمضان - ذوالحجہ ۱۳۵۹ھ / اکتوبر-دسمبر ۱۹۴۰ء) میں شائع کی تھی۔ اِس کے بعد مولانا سندھی کی امالی پر مبنی دوسری تحریر ’’شاہ ولی اللہ اور اُن کی سیاسی تحریک‘‘ ( ۱۹۴۲ء) شائع ہوئی۔
آخر الذکر تحریر یا تالیف پر سیّد احمد شہید کی تحریکِ جہاد و اصلاح، اور اِس کے دورِ ثانی میں علماے صادق پور کے کردار پر عقیدت مندانہ نقطۂ نظر رکھنے والے مولانا مسعود عالم ندوی (م ۱۹۵۴ء) نے ’’استدراک و تنقیح‘‘ کے زیر عنوان قلم اُٹھایا۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) کے چار شماروں فروری تا مئی ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی۔ ’’استدراک و تنقیح‘‘ کی اشاعت کے دوران میں مولانا سندھی نے مولانا مسعود عالم سے خط کتابت بھی کی، اور بعض ’’شبہات‘‘ کی تصحیح کے لیے ’شاہ ولی اللہ اور اُن کی سیاسی تحریک -استدراک ‘ کے زیر عنوان اپنے افکار کی وضاحت کی (’’بُرہان‘‘ - دہلی بابت مئی ۱۹۴۳ء)۔
’’شاہ ولی اللہ اور اُن کی سیاسی تحریک‘‘ میں مولانا سندھی کے قوم پرستانہ خیالات اور شاہ ولی اللہ اور اُن کے متوسلین کے ذریعے جاری ہونے والی تحریکِ جہاد،ا ور اِس ضمن میں برعظیم کی اہلِ حدیث فکر زیرِ بحث آئی ہے۔ ’’شاہ ولی اللہ اور اُن کی سیاسی تحریک‘‘ میں اٹھائے گئے مباحث پر مولانا غلام رسول مہر(م ۱۹۶۴ء) نے بھی قلم اُٹھایا، مگر ان کی تحریریں بہت بعد میں سامنے آئی تھیں، اولاً ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘(کراچی،بابت دسمبر ۱۹۴۹ء)میںایک مضمون’شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، سیّد احمد شہید اور مولانا عبید اللہ سندھی‘ کی صورت میں، اور پھر مولانا مہر کی تحریروںمیں جو تحریکِ اصلاح و جہاد کے بارے میں لکھی گئیں۔
مذکورۃ الصدر تحریروں یا کتابوں کے ذریعے جو ہلچل پیدا ہوئی تھی، اسے مولانا سندھی کے شاگرد پروفیسر محمد سرور (م۱۹۸۳ء)کی تالیف ’’مولانا عبیداللہ سندھی: حالاتِ زندگی، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ (لاہور: سندھ ساگر اکاڈمی، ۴۳ ۱۹ء) کے محتویات نے بڑھاوادیا۔ مولانا سندھی کی مذکورۃ الصدر تحریریں اہلِ علم اور خواص کے لیے تھیں، اور اُن کا حلقہ بھی بہت محدود تھا، مگر پروفیسر محمد سرور کی کاوش عامۃ الناس کے لیے تھی۔ مولانا مسعود عالم کے الفاظ میں:
[یہ] کتاب مولانا کے ایک لائق شاگرد اور معتقد نے آسان زبان میں لکھی ہے، جس میں اُن کے تمام افکار یک جا اور پھیلاکر پیش کیے گئے ہیں، طرزِ بیان دلچسپ اور مؤثر ہے، واقعات تاریخی تسلسل اور افکار سلجھاؤ کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ غرض جہاں تک مولانا کے افکار و آراء کا تعلق ہے، یہ کتاب اُن کے پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ (ماہنامہ ’’معارف‘‘، ستمبر ۱۹۴۴، ص ۱۷۳)
مولانا مسعود عالم نے افکارِ سندھی سے اپنی سابق دلچسپی کے تحت ’’مولانا [سندھی] کے افکار کی تنقید اور مکمل جائزہ کے لیے بڑی فرصت اور پھیلاؤ کی ضرورت ‘‘کو ایک طرف رکھتے ہوئے مختصر وقت میں اِس کتاب کی روشنی میں مولانا کے فکر و دانش پر بارہ صفحات میں گرفت کی۔ ’’معارف‘‘ کے جس شمارے میں مولانا مسعود عالم ندوی کا یہ ناقدانہ تبصرہ چھپا، اِس میں مولانا سندھی کی وفات کا ذکر ہے۔ ذیل میں پہلے مولانا سندھی کی وفات پر مدیر ’’معارف‘‘ کے تعزیتی تأثرات اور پھر تبصرے سے متعلق شذرہ نقل کیا جاتا ہے:
افسوس ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی نے ۲۳ اگست۱۹۴۴ء کو اِس عالمِ فانی کو الوداع کہا، مرحوم نے ساری عمر اپنے خیالات کی خاطر، جن کو وہ حق سمجھتے تھے، تکالیف میں بسر کی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مدت کے بعد کوئی عالمِ دین ایسا پیدا ہوا تھا جس نے اس طرح مجاہدانہ زندگی بسر کی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے، اور مقامِ اعلیٰ نصیب فرمائے!
اس نمبر میں ’’مولانا عبیداللہ سندھی‘‘ نام [کی] ایک کتاب پر تبصرہ شامل ہے۔ یہ مضمون کئی ماہ پہلے لکھا گیا، اور ’’معارف‘‘ میں چھپنے کو آیا، اگر اس کا تعلق مولانا کی ذات سے ہوتا، تو ہم اس کی اشاعت قطعاً روک دیتے، مگر چوں کہ ذات کے بجاے ان کے خیالات سے متعلق ہے، جو اُن کی وفات کے بعد بھی پھیلیں گے، اور پھیلائے جائیں گے، اس لیے اِس کی اشاعت کی ضرورت بہرحال باقی ہے۔ (’’معارف‘‘، ستمبر ۱۹۴۴ء، ص ۱۶۱)
مولانا سندھی کے ’’شاذ‘‘ افکار پر اِس گرفت کے باوجود وقت کا مضبوط اور فعال گروہ علماے دیوبند خاموش رہا، اور ایک حساس صاحبِ دانش کو یہ لکھنا پڑا: ’’مولانا [سندھی] مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ اُن کا تعلق علماے کرام کے اس طبقہ سے تھا جو اپنی گروہ بندی کی عصبیت میں حدِ کمال تک پہنچا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا سب کچھ فرماگئے اور لکھوا اور چھپوا بھی گئے، اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر ہیں، ورنہ کہیں انہوں نے اِس طبقۂ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسیّد اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شان دار نہ ہوا ہوتا!‘‘ (’’ترجمان القرآن‘‘، جولائی-اکتوبر ۱۹۴۴ء)
علماے دیوبند بحیثیت مجموعی اپنی روشِ خاموشی پر قائم رہے،ا ور مولانا سندھی کی سیاسی خدمات اُجاگر کرتے رہے، البتہ فکر ی سطح پر دارالعلوم دیوبند کے فاضلین کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنفین، اور ادارے کے ترجمان ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) کے مدیر مولانا سعید احمد اکبر آبادی (م ۱۹۸۵ء) افکار سندھی کی حمایت اور دفاع میں پیش پیش رہے۔ غالباً علماے دیوبند میں سے واحد آواز مولانا مناظر احسن گیلانی (م ۱۹۵۶ء) کی تھی، جنہوں نے مولانا اکبر آبادی سے اختلاف کرتے ہوئے اُنہیں اپنی روش میں اصلاح کرنے کا مشورہ دیا، اور اُن کے سامنے اپنا نقطۂ نظر ایک مضمون کی صورت میں رکھا۔ فروری ۱۹۴۳ء کے ایک خط میں اُنہوں نے مولانا سیّد سلیمان ندوی کو لکھا تھا:
مولوی عبیداللہ صاحب والا مضمون ٹائپ ہوکر آگیا ہے۔ --- میں اِسے بھی شائع کرنا نہیں چاہتا۔ --- جس کے لیے میں نے یہ سب کچھ کیا ہے،وہ مولوی سعید احمد اکبر آبادی ہیں جنہوں نے بلاوجہ اس شخص کی غلط نصرت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ میں نے اُن کو منع کیا تھا، لیکن اُنہوں نے شاید میرے تعصب پر اسے محمول کیا۔ --- (سیّد منت اللہ رحمانی، ’’مکاتیب گیلانی‘‘، مونگیر:دارالا شاعت رحمانی، ۱۹۷۲ء،صفحات ۳۲۱-۳۲۳۔ ان جملوں کے بعد مولانا گیلانی نے مولانا سندھی کے عقائد پر سخت ترین لفظوں میں نقد کیا، اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے طرزِ عمل کو اپنے اوپر’’بڑی ذمہ داریاں‘‘ لینے کے مترادف قرار دیاہے۔)
مولانا گیلانی کی کوششِ اصلاح ناکام رہی، اور آخر اُنہوں نے مضمون کی تسوید کے کوئی سوا دو سال بعد اسے شائع کرادیا (۱۹۴۵ء)۔ اِس دوران میں مولانا اکبر آبادی نے مولانا مسعود عالم ندوی کے ’’ناقدانہ تبصرہ‘‘ پر تعقیب لکھی جو ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) کے سات شماروں (اکتوبر ۱۹۴۴ء تا اپریل ۱۹۴۵ء) میں مکمل ہوئی، جسے پروفیسر محمد سرور نے اپنے ادارے سندھ ساگر اکاڈمی - لاہور سے اپنے پیش لفظ کے ساتھ ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور اُن کے ناقد‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اِس سے چند ماہ بیشتر مولانا مسعود عالم ندوی کے دونوںتبصرے، سیّد سلیمان ندوی کے مقدمے کے ساتھ ’’مولانا سندھی اور اُن کے افکار و خیالات پر ایک نظر‘‘ (بانکی پور -پٹنہ: مکتبہ دین و دانش، بعد ۲۵ رمضان ۱۳۶۳ھ / [ستمبر ۱۹۴۴ء]) شائع ہوچکے تھے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال پر اہم پیش رفت مولانا حسین احمد مدنی (م ۱۹۵۷ء) کا ایک بیان تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس بیان کا ایک محرک مولانا گیلانی کا وہ مضمون بھی تھا جو اُنہوں نے اشاعت سے پہلے مولانا شبیر احمد عثمانی (م ۱۹۴۹ء) ، سیّد سلیمان ندوی، قاری محمد طیّب (م ۱۹۸۳ء) اور مولانا مدنی کو ارسال کیا تھا کہ وہ بھی اِسے دیکھ لیں۔ مولانا مدنی نے اپنی تحریر میں مولانا سندھی کی بے لوثی، للہیت، علومِ دینیہ سے اُن کے مثالی لگاؤ، اور راہِ آزادی میںپے درپے ناکامیوں، نیز بے پناہ مشکلات برداشت کرنے پر انہیںبھرپور خراجِ تحسین پیش کیا، اور اُن کے شاذ اور جمہور مسلمانوںکے تصوراتِ دینی سے مخالف افکار کا بالوضاحت ذکر کیے بغیر مجملاًلکھا:
وطن اور مذہب کی آزادی کے لیے اور بھی متعدد اشخاص نے مشکلات اور مصائب جھیلے ہیں، مگر مولانا عبیداللہ مرحوم کی سی مشکلات کس نے جھیلیں؟ اگر غور کیا جائے تو پہاڑ اور ذرے کا فرق پایا جائے گا۔ ان مصائبِ عظیمہ غیرمتناہیہ نے، اگر چہ موت کے گھاٹ تک مولانا کو پہنچانے میںشکست کھائی اور مولانا کی سخت جانی ہی غالب رہی، تاہم وہ مولانا کے قلب اور دماغ کو متأثر کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔مولانا دماغی توازن کھوبیٹھے، صبر و تحمل، حلم و بردباری، استقلال و گراں باری وغیرہ نے جواب دے دیا۔ فکر و غور اور جودتِ طبع جوکہ مولانا مرحوم کو مضامینِ عالیہ اور سیاستِ مدنیہ کی عمیق سے عمیق گہرائیوں تک پہنچانے والے تھے، وہ تقریباً کافور ہوگئے۔
بنابریں تمام اہلِ فہم واربابِ قلم و علم سے پُرزور درخواست ہے کہ مولانا مرحوم کی کسی تحریر کو دیکھ کر اس وقت تک کوئی حتمی رائے قائم نہ فرمائیں، جب تک کہ اس کو اصول اور مسلّماتِ اسلامیہ، ضروریاتِ دین اور عقائد و اعمالِ اہلِ سنت والجماعت کے زریں قواعد و تالیف پر پرکھ نہ لیں، اور علی ہذاالقیاس مولانا کے کسی کلام کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اسلاف و اکابر دیوبند کا مسلک بھی نہ سمجھیں، جب تک کہ وہ اسی کسوٹی پر اس کو کس نہ لیں۔ یہ حضراتِ اکابر جملہ عقائد و اعمال میں، خواہ وہ فروع سے تعلق رکھتے ہوں، یا اصول سے، سلف صالحین اور اُن کے اصول و قوانینِ مسلمہ اہلِ سنت والجماعت ہی کے تابع ہیں، اور اسی کی تعلیم و تلقین کرتے رہے ہیں۔
(مولانا مدنی کی یہ تحریر بار بار شائع ہوئی اور مختلف کتابوں کا حصہ بنی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: lعبیداللہ سندھی، ’’ذاتی ڈائری‘‘ مرتبہ عبدالقدوس قاسمی، لاہور: ادبستان، ۱۹۴۶ء، صفحات ۴۱-۵۰،lصوفی عبدالحمید سواتی، ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار‘‘، گوجرانوالہ: ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم، ۱۹۹۰ء، صفحات ۱۳۵-۱۴۱ مولانا سندھی کے بعض عقیدت مندوں نے مولانا مدنی کی جانب مذکورہ تحریر کی نسبت کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے،مگر مولانا مدنی نے اپنی زندگی میں اس تحریر سے کبھی برأت کا اظہار نہیں کیا۔)
مولانا عبید اللہ سندھی کی زندگی میں اُن کے مختلف فیض یافتگاں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، مگر اُن کی رحلت کے بعد اُن کی تفسیری امالی شائع ہوئیں۔ مولوی بشیر احمد لدھیانوی نے سورۃ فاتحہ، سورۃ قتال، سورۃ فتح، سورۃ مزمل و سورۃ مدثر، سورۃ العصر، سورۃ الاخلاص اور معوذتین کی الگ الگ تفسیریں شائع کیں، مگر زیادہ اہمیت موسیٰ جاراللہ (م۱۹۴۹ء) کی تفسیری امالی ’’الہام الرحمن‘‘ اور مولانا عبداللہ لغاری کی ’’المقام المحمود‘‘ کو حاصل ہوئی۔ موسیٰ جاء اللہ ماسکو میں رہتے تھے ، اور مولانا سندھی جب روس گئے تو دونوں حضرات کے درمیان تعارف ہوا.
بعد ازاں موسیٰ جار اللہ مکہ معظمہ گئے، اور ایک سو پچاس د ن مولانا سندھی کی خدمت میں رہ کر عربی میں املائی تقریر نقل کی (اِس کا متن محمد نور مرشدمکّی اور مولانا غلام مصطفی قاسمی نے مرتب کیا، بعد میں اُردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا۔) مولانا عبداللہ لغاری کی اُردو املائی تفسیر ’المقام المحمود‘‘ کا پارہ عم ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ کی تقدیم و تصحیح سے شائع ہوا۔ تفسیری امالی کے علاوہ مولانا سندھی کی دوسری امالی میں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ابتدائی ۱۷ ابواب کا ترجمہ و تشریح مولانا عبداللہ لغاری نے ضبط کیا تھا، اسے بشیر احمد لدھیانوی نے مرتب کرکے شائع کیا، مزید برآں لدھیانوی صاحب نے مولانا سندھی کے رسالہ محمودیہ (عربی و فارسی) کا حامل متن اُردو ترجمہ شائع کیا۔
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی نے مولانا سندھی کی ’’ التمہید لتعریف ائمۃالتجدید‘‘ (عربی) اپنے حواشی کے ساتھ مرتب کی، اور شائع کرائی(جام شورو: لجنۃ احیاء الادب السندی، ۱۹۷۶ء)۔ شاہ ولی اللہ کی کتابوں میں سے ’’خیر الکثیر‘‘ اور ’’سطعات‘‘ کے ترجمے شائع کیے گئے۔ اوّل الذکر ترجمہ مولانا غلام مصطفی قاسمی نے مولانا سندھی سے کتاب پڑھ کر کیا تھا، اور دوسری کتاب کا ترجمہ و تشریح بشیر احمد لدھیانوی کو مولانا سندھی سے حاصل ہوا تھا۔ مذکورہ کاوشوں کے ساتھ ساتھ پروفیسر محمد سرور بھی اپنی اوّلیں کاوش’’ مولانا عبیداللہ سندھی: حالاتِ زندگی، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ کے بعد سندھ ساگر اکادمی - لاہور کی جانب سے مولانا سندھی کی متفرق تحریریں ترتیب و تدوین کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ ( l’’ذاتی ڈائری - کابل میں سات سال ‘‘ l’’خطبات و مقالات ‘‘ )
مگر اُن کی دوسری کتاب جس نے لوگوں کو چونکا دیا،ا ور نتیجتاً رد و قدح کا موضوع بنی، وہ ’’افادات و ملفوظات مولانا عبیداللہ سندھی‘‘ (لاہور: سندھ ساگر اکیڈمی، اشاعت اوّل، ۱۹۷۲ء) تھی۔ اس کتاب پر کسی نے ’’ایک وطن دوست‘‘ کے نقاب میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ (لاہور) میں تبصرہ لکھا (۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء) جسے پڑھ کر صوفی عبدالحمید سواتی (م ۲۰۰۸ء) نے پہلے مولانا سندھی کی شخصیت اور افکار کی وضاحت کے لیے ایک مضمون لکھا، اور پھر اپنی معروف کاوش ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم و افکار‘‘ (گوجرانوالہ: ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم ، ۱۹۹۰ء) مرتب کی۔ اُنہوں نے اپنی اِس کتاب میںبراہِ راست ذاتی معلومات کی بنیاد پر مولانا سندھی کی امالی مرتب کرنے والوں، اور اُن کے بعض پیروکاروں کے بارے میں راے دی ہے۔ ان کا اصولی موقف یہ ہے:
انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا سندھی کے بعض افکار شاذ بھی ہیں۔ بعض مرجوع قسم کے خیالات بھی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ مولانا ان پر بے جا سختی بھی کرتے تھے۔ بعض باتیں مصلحت کی خاطر بھی ناگزیر خیال کرتے تھے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کی نسبت ان کی طرف کرنے میں اُن کے تلامذہ نے غلطی کی ہے، اس کی ذمہ داری حضرت مولانا پر نہیں، بلکہ اُن کے ناقلین پر ہے، جنہوں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے، اور شاید سابق ولاحق سے قطع نظر کرکے حضرت مولانا سندھی کا مطلب بھی نہیں پاسکے؛ بہرحال خیالات و افکار کا شذوذ تو ہر مجتہد اور محقق میںپایا جاتا ہے، لیکن بایں ہمہ مولانا سندھی اپنے مسلک، عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے پکے، سچے، راسخ العقیدہ اور پُرجوش مسلمان تھے۔(’’مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم و افکار‘‘، ص ۱۳)
مگر صوفی صاحب نے اپنی کتاب میںشاذ و مرجوع افکار و خیالات کی نشان دہی کی ضرورت اِس لیے محسوس نہیں کی کہ وہ مولانا سندھی کا دفاع کررہے تھے، اور اُن کے اُنہی افکار و خیالات کو پیش کرنا چاہتے تھے جن سے وہ ’’راسخ العقیدہ اور پُرجوش‘‘ مسلمان ثابت ہوسکیں۔ ’’پروفیسر سرور صاحب کی خطاء‘‘ کے زیرعنوان صوفی صاحب نے مولانا سندھی کے بارے میں اُن کی معروف کتابوں کی چند تعبیرات اور بیانات پر گرفت کی ہے۔ پروفیسر صاحب نے مولوی نورالدین بھیروی (م ۱۹۱۴ء) اور لاہوری احمدی رہنماؤں کے بارے میں مولانا سندھی کے مثبت خیالات بیان کیے تھے۔
صوفی صاحب نے اِس بات کی سختی سے تردید کی کہ مولوی نورالدین (جنہیں وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے کے مدمقابل لاہوری احمدیوں کا سربراہ قرار دیتے ہیں!) اور اُن کے ساتھیوں کی جانب مولانا سندھی کا ایسا مثبت اور تعریفی رویہ ہوسکتا ہے (’’مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم و افکار‘‘، صفحات ۲۱۳-۲۱۴)، مگر اقبال شیدائی (م ۱۹۷۴ء) کے نام مولانا سندھی کے مکتوبات سے پروفیسر محمد سرور کی روایت اور بیانات کی صد فی صد تائید ہوتی ہے۔ (دیکھیے: ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے سیاسی مکتوبات‘‘، مرتبہ محمد اسلم، لاہور: ندوۃ المصنفین، س-ن؛ ’’مکاتیب مولانا عبیداللہ سندھی‘‘، مرتبہ ابوسلمان سندھی، لاہور: المحمود اکیڈمی، [۱۹۹۴ء])
برعظیم کے دیوبندی حلقوں میں علماء دیوبند کے ’’شان دار ماضی‘‘ کے پرچار کے لیے جن کارناموں پر پوری تفصیل اور تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے، اُن میں ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے (’’تحریک ریشمی رومال‘‘ جسے ’’تحریکِ شیخ الہند‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے ایک منصوبہ تھا جو روبہ عمل آنے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا تھا۔ برطانوی انٹیلی جنس کے نیم پڑھے لکھے مخبروں نے اِس منصوبے کے بارے میں جو رپورٹیں لکھی ہیں، اُن کے بارے میں یہ بات تو وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ اِس منصوبے کے اصل بنانے والوں کے بارے میںتو غلط فہمیوں کا شکار تھے ہی.
اور نہیں کہا جاسکتا کہ اِس منصوبے کے عام کارکنوں کے بارے میںاُن کی رپورٹیں کس حد تک درست ہیں!) اور ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے چند مرکزی کرداروں میں سے ایک مولانا عبیداللہ سندھی کی ذاتِ گرامی تھی، اور یوں دیوبندی حلقوں میں مولانا سندھی کے گرد عقیدت کا ہالہ بنتا چلا گیا۔وطنِ عزیز کے سیاسی منظر نامے میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں سوشلزم کا بڑا غلغلہ رہا۔ کمیونسٹ پارٹی تو خلافِ قانون تھی، مگر سوشلسٹ ذہن رکھنے والے اہلِ قلم اپنے ادب و انشاء کے ذریعے سوشلزم کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے، اِس دوران میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے سوشلزم کو عامۃ الناس کی سطح پر’’اسلامی سوشلزم‘‘ بناکر پیش کیا.
اور عامۃ الناس کے لیے سوشلزم میں، اِس کے نظریاتی بنیان گزاروں کی آراء و خیالات کے بالکل برعکس، ایسی کوئی بات نہ تھی کہ اِس سے بدکا جاتا۔ ۷۰-۱۹۶۹ء کے انتخابی دور میں دیوبندی ذہن کے بعض زعماء اور کارکنوں کے لیے ’’سوشلسٹ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا،ا ور دیوبندی بزرگ سوشلزم کے مسئلے پر دو متحارب کیمپوں میں بٹے رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار (۱۹۷۰-۱۹۷۷ء)،ا ور بعدازاں اُن کی پارٹی تین بار برسرِ اقتدار رہنے کے باوجود ’’سوشلزم‘‘ کے نام پرچند ’’نمایشی‘‘ اقدامات سے زیادہ کچھ نہ کرسکی، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ماضی میں نرم گوشہ رکھنے والے دیوبندی عناصر اُن کے خلاف صفِ اوّل میں کھڑے ہوگئے۔
اِس پس منظر میں سیاسی سطح پر ’’جمعیت علماے اسلام‘‘ کے جھنڈے تلے منظم دیوبندی حلقۂ فکر سے دور رہ کر مولانا سعید احمد راے پوری نے ’’تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کا آغاز کیا، جو آج دیوبندی ذہن کے ایک محدود اور فعال طبقے میں اثر و رسوخ کی مالک ہے، اور اُن خیالات کی مناد ہے جو مولانا سندھی نے اپنی تحریروں یا امالی میں پیش کیے تھے۔ وہ صوفی عبدالحمید سواتی جیسے دیوبندی علماء کی طرح ’’الہام الرحمن‘‘ اور ’’المقام المحمود‘‘ یا مولانا سندھی کی ڈائری (مرتبہ عبداللہ لغاری) جیسی کتابوں میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فرق نہیں کرتے، بلکہ ان تحریروں کو بحیثیتِ مجموعی قبول کرتے ہیں۔
’’تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے بڑھتے ہوئے نفوذ و تاثیر سے پریشاں دیوبندی حلقوں میں بے چینی کا اظہار، اُن فتووں سے ہوتا ہے جو دیوبندی مدارس کے مفتی صاحبان نے جاری کیے ہیں، نیز دیوبندی مدارس کے وفاق ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے اس فیصلے سے ہوتا ہے جس کے مطابق کسی ایسے مدرسے کو وفاق میں شامل نہ کیا جائے گا جو’’ تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ سے وابستہ ہے، اور وفاق میں شامل تمام مدارس اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اُن کے مدرسین میں کوئی اِس تنظیم سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
مذکورہ پس منظر میں دیوبندی حلقوں سے گاہے گاہے ’’تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے بارے میں آوازیں اُٹھتی رہی ہیں، ان آوازوں کو مفتی محمد رضوان صاحب نے ۲۰۰۲ء میں ایک پمفلٹ ’’تنظیم فکرِ ولی اللہی اوراس کا شرعی حکم ‘‘کے نام سے پیش کیا تھا۔اب اُنہوں نے نسبتاً وسیع تناظر میں مولانا عبیداللہ سندھی کے فکر و دانش پر عدمِ اطمینان کی حامل تحریروں کے ساتھ پمفلٹ کے مضامین کوبارِ دگر پیش کیا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی (م ۱۹۴۳ء) کا رسالہ ’’التقصیر فی التفسیر‘‘ (تالیف رمضان ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۹ء) تسہیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس کی عربی و فارسی عبارات کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ (واضح رہے کہ یہ رسالہ صرف ایک بار ہی شائع ہوا تھا۔ مفتی محمد رضوان صاحب نے تسہیل کا فریضہ تو بہت عمدگی سے انجام دیا ہے، مگر مولانا تھانوی نے مولانا سندھی کی جانب منسوب جن عبارتوں کو بطور حوالہ نقل کیاہے، اِن کی ’’تخریج‘‘ نہیں کی۔ قاری کو اگر اِن عبارتوں کے مأخذ کا علم ہوجاتا تو زیادہ مناسب تھا،ا ور اگر احتیاط پسند طبیعتیں بہ چشم خود پڑتال کرنا چاہتیں تو اُن کی کامل تشفی کی راہ نکل آتی۔)
شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ( م ۱۹۶۲ء) سندھی مکتبِ تفسیر کے ایک اہم عالم ہیں، اور مولانا سندھی کے ساتھ خاندانی اور استاد-شاگرد کے بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ مولانا سندھی اور اُن کے درمیان فکری تفریق پر طرفین کی تحریریں پیش کی گئی ہیں، جن کی تصدیق دوسری روایات سے بھی کی گئی ہے۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی ایک تحریر کے ضروری اجزاء اور دوسری مکمل تحریر، نیزاُن کی تالیف ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور اُن کے افکار و خیالات پر ایک نظر‘‘ پر سیّد سلیمان ندوی کا مقدمہ بھی نقل کیا گیا ہے۔اسی طرح مولاناحسین احمد مدنی کی وہ تحریر بھی نقل کی گئی ہے جس کا سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کے تأثرات اور اُن کی مفصل تحریر ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار کا تحقیقی جائزہ‘‘ من و عن نقل کی گئی ہے، نیز اُس دور کے ہفتہ روزہ ’’صدق‘‘ (لکھنؤ) کے کالموں میں اہلِ علم عبدالماجد دریابادی، عبدالصمد رحمانی اور ’’مبصر صدق‘‘ کے قلم سے جو شذرات چھپے، اِن کی ایک جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔ صوفی عبدالحمید سواتی کی تالیف پر مولانا محمد تقی عثمانی کا تبصرہ شامل کیا گیا ہے، اور ابن الحسن عباسی کی ایک تحریر بھی۔ پروفیسر محمد سرور کی تالیف ’’افادات و ملفوظات امام عبیداللہ سندھی‘‘( ناشر نے عنوان میں مصنف کے استعمال کردہ تعظیمی لقب ’’مولانا‘‘ کو ’’امام‘‘ سے بدل دیا ہے۔)پر جناب شکیل عثمانی کا وہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے جو اولاً ’’نقطۂ نظر‘‘ (شمارہ ۲۰، بابت اپریل تا ستمبر ۲۰۰۶ء) میں شائع ہوا تھا۔
’’تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کی مناسبت سے مفتی عبدالواحد کی ایک جامع تحریر (جو غالباً بصورت کتابچہ بھی دستیاب ہے) شامل کی گئی ہے۔آخر میں’’ تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے بارے میں دیوبندی مکتبِ فکر کے چند مدارس (دارالعلوم دیوبند، جامعہ فاروقیہ - کراچی، دارالعلوم - کراچی، دارالعلوم حقانیہ - اکوڑہ خٹک، دارالعلوم تعلیم القرآن - راول پنڈی اور جامعہ اسلامیہ -راول پنڈی )کے فتاویٰ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا فیصلہ، تین دیوبندی علماء (مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالحق خاں بشیر اور قاری محمد حنیف جالندھری) کی آراء اور ایک سنسنی خیز اخباری رپورٹ بطور ضمیمہ نقل کی گئی ہے۔ ان کے بعد ’’سوشلزم اور اسلام‘‘ کے حوالے سے چند مختصر تحریریں یک جا کی گئی ہیں۔
مفتی محمد رضوان نے مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر نقد و تبصرہ، اور’’ تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے فکر و دانش پر دیوبندی ردِ عمل کو یک جا کرکے قارئین کو پڑھنے کا خاصا لوازمہ فراہم کردیا ہے، تاہم کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اُن کی احتیاط پسند اور معتدل طبیعت کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ اختلافِ نظر کے ساتھ دامنِ احتیاط کو تھامے رہے ہیں ،(مولانا مناظر احسن گیلانی کے مکتوب بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی سے اُن کے ’’سخت‘‘ جملوں کو حذف کردینا، جو اُن کے مأخذ میں موجود ہیں، اِس کا غماّزہے،) مگر مولانا گیلانی کی تحریروں کے حوالے سے دوسری جگہ یہ احتیاط نہیں کرسکے۔
مولانا نے دارالعلوم دیوبند میں اپنے طالب علمانہ دور کی یادداشتوں میں مولانا سندھی اور اُن کے معاصر اکابر دیوبند سے اُن کے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔ اِس ذکر میں بحیثیتِ مجموعی مولانا گیلانی کا جھکا ئو حضرت شیخ الہند کے فیصلۂ ناطق کے مطابق مولانا سندھی کی جانب نظر آتا ہے، مگر اُن یادداشتوں کا اقتباس درست ہونے کے باوجود اس تأثر سے محروم ہے جو مولانا گیلانی کی پوری تحریر سے اُبھرتا ہے۔
ان مضامین اور فتاویٰ سے ’’تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کی تاریخ، لٹریچر اور پیش رفت پر کوئی مفصل معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ معلومات بھی علمی سطح پر دستیاب ہوتیں، اور قاری کو مسلکی یا سیاسی گروہ بندی سے الگ ہوکر راے قائم کرنے میں آسانی ہوتی۔ کتابت کی اِکا دُکا اغلاط سے قطع نظر ادارہ غفران - راول پنڈی نے کتاب معیاری انداز میں شائع کی ہے۔
تبصرہ لکھیے