ہوم << عظیم پروفیسر خورشید سے ایک مناظرہ - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عظیم پروفیسر خورشید سے ایک مناظرہ - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عالمگیر اور تاریخی پیمانے پر پروفیسر خورشید رحمہ اللہ کی خدمات کے بیان کے لیے ضخیم مجلدات درکار ہیں۔ یہ کام فرد نہیں اداروں کا ہے۔ عشرے درکار ہیں۔ ان پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ان کی کتابوں کے متعدد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں، ان پر پی ایچ ڈی کرنے والے سینکڑوں ہیں۔ میرے نہ کرنے کے یہ کام ہوتے رہیں گے لہٰذا آج کچھ اور۔ مت کہییے کہ لات و منات کعبۃ اللہ ہی میں تھےجو اب نہیں ہیں۔ یہ تو ہر سوچ کے اندر موجود ہیں۔ کسی سیاسی گروہ، مذہبی پیشوا یا انجمن خانہ ساز کے راہنما سے ذرا اختلاف کر دیکھیے، حشر نشر ہو جائے گا۔ 44 سال تک کے اپنے ایک دوست کے ایک واٹس ایپ پر لکھ بیٹھا کہ بنچ میں فلاں جج نہیں فلاں تھے، چھ سال سے تعلقات ختم ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے تعمیراتی منصوبے پر مشورہ مانگا، دے بیٹھا جو احباب کے خیال میں صائب لیکن ان کے مزاج کے منافی تھا۔ مدتوں ان کا یوں نشانہ تضحیک بنتا رہا:"آپ سے ملیے, شہزاد صاحب مشہور ماہر تعمیرات ہیں"۔

لیکن پروفیسر خورشید سے میں نے اختلاف ہی نہیں بھرپور مناظرہ کر کے اس عظیم شخص کے دل میں جگہ بنالی ۔ اخوانی فکر کے مصری ڈاکٹر حسین حامد حسان مرحوم قد آور ماہر قانون تھے۔ اسلامی یونیورسٹی قائم ہونی تو دنیا بھر سے بلند مرتبہ ماہرین تعلیم لانے میں پروفیسر خورشید کا خاموش کردار رہا۔ ڈاکٹر حسین پہلے ڈین پھر طویل مدت تک صدر جامعہ رہے۔ مہینے میں بمشکل ایک ہفتہ یہاں رہتے، ورنہ غیر ملکی دوروں پر ہوتے۔ مشہور تھا کہ یونیورسٹی وہ نہیں ان کا سیکرٹری چلاتا ہے. کئی سربراہان مملکت سے ان کے ذاتی تعلقات تھے لہذا انہوں نے اعلیٰ پیمانے کے کام بھی کرائے. نو آزاد ملک قازقستان تو گویا ان کا اپنا گھر تھا۔ صدر نور سلطان نذر بائیوف نے انہیں قازقستان کا دستور تیار کرنے کو کہا تو ہمارے دلدار یار پروفیسر صادق ڈار نے مکمل دستور تیار کردیا جو کم و پیش 70 فیصد اپنا لیا گیا۔

صدر جامعہ کے نائب سے فون پر چلتی جامعہ کے امور بتدریج بگڑتے گئے۔ لوگوں کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔ قطعہ زمین ہونے اور لوگوں کے بقول جگہ جگہ سے عطیات ملنے کے باوجود ڈاکٹر حسان کو کیمپس بنانے میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔ یونیورسٹی شہر میں بکھری عمارتوں پلازوں میں چل رہی تھی۔ اللہ معاف کرے، اخوان المسلمون کے اس قد آور ماہر تعلیم پر پھر غبن کے الزامات لگنا شروع ہو گئے۔ انہیں لگ بھگ 15- 18 سال ہو چلے تھے. صدر جامعہ کو بین الاقوامی بورڈ آف ٹرسٹیز مقرر کرتا ہے. چنانچہ اگلے چار سال کے لیے بورڈ اجلاس کی تاریخ نکلی تو اساتذہ نے ان کے خلاف مہم کا آغاز کیا. ڈاکٹر سید طاہر, ڈاکٹر طاہر منصوری اور مجھ پر مشتمل کمیٹی بنی تاکہ وہ ٹرسٹیز سے مل کر انہیں اصل صورت حال بتائے۔

ہم پروفیسر خورشید صاحب کے پاس گئے۔ وہ بورڈ کے بانی رکن تھے۔ ڈاکٹر سید طاہر نے بات شروع کی، ڈاکٹر منصوری لقمے دیتے گئے. ہمیں جانتے ہوئے اور لگاؤ بھرے تعلق کے باوجود بمشکل پانچ منٹ ہی میں پروفیسر صاحب چیخ اٹھے: "بھئی کیسی باتیں کرتے ہیں آپ لوگ؟ اتنے سمجھدار ہو کر آپ اپنے ایک اخوانی ساتھی پر بلا ثبوت سنگین الزام لگا رہے ہیں۔ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ان کے غبن کا؟ کتنی رقم غبن کی ڈاکٹر حسین نے؟ بتائیے, ثبوت لائیے"؟ میں نے 46 سالہ تعلق میں پہلی اور آخری دفعہ انہیں قدرے غصے میں پایا۔ پھر شاید انہیں خود ہی احساس ہو گیا۔ اب انہوں نے مشفقانہ لہجہ اختیار کر لیا۔ ثبوت تو ہمارے پاس تھے ہی نہیں لہذا سید طاہر واپسی کی اجازت طلب کرنے لگے۔ تب میں نے بولنے کی اجازت مانگی تو مسکرا کر بولے: "ہاں ہاں, آپ بھی کہہ لیجیے جو کہنا ہے، بولیے!

عرض کیا: "جناب کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تاریخ انسانی کے پوتر اور پاکیزہ ترین لوگ صحابہ کرام تھے۔ ان کا تیسرا خلیفہ راشد منتخب کرنے کو عبدالرحمن بن عوف کی سرداری میں صحابہ کرام کا بورڈ آف ٹرسٹیز بنایا گیا۔ خلیفہ مقرر کرنے کے لیے بورڈ ارکان مدینہ آنے جانے والے قافلوں کے لوگوں سے رائے لیتے رہے۔ طلبا، پردہ دار خواتین، تاجروں، کسانوں و غیرہم سے خفیہ اور اعلانیہ رائے لی گئی۔ صحرائی بدوؤں سے مشورے کیے گئے۔ لیکن کسی رائے کے حق یا مخالفت میں بورڈ نے کوئی ثبوت نہیں مانگا۔ یہ عمل تین دن اور تین راتوں میں بلا تعطل اور بورڈ ارکان کی یکسوئی تک جاری رہا۔ بالآخر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ثبوت مانگے یا لیے بغیر خلیفہ مقرر ہو گیا۔

"پروفیسر صاحب میری یہ بدقسمتی ہے کہ جس محترم شخصیت کی انگلی پکڑ کر میں نے لکھنا سیکھا آج اسے یہ سمجھانا پڑ رہا ہے کہ سیاسی منصب دیتے وقت جو ثبوت درکار ہوتے ہیں وہ فوجداری جرائم میں کچھ کام نہیں آتے۔ ڈاکٹر حسین کو ایک منصب دینے سے قبل ہم رائے دے رہے ہیں جو آپ کو خود طلب کرنا چاہیے تھی۔ آپ عدالت نہیں ہیں کہ ہم فوجداری جرم کے ثبوت دیں"۔ یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔ اردو، عربی اور انگریزی پر کلی دسترس کے سبب اگلے دن ڈاکٹر منصوری ٹرسٹیز کے اجلاس میں بطور مترجم شریک تھے۔ اجلاس ختم ہوتے ہی طاہر نے مجھے فون کیا:"مبارک ہو، الحمدللہ ہم کامیاب ہوئے۔ لیکن سنو! اصل بات کچھ اور ہے. اجلاس میں پروفیسر صاحب وہ سارے دلائل دہرا رہے تھے جو کل آپ انہیں دے رہے تھے".

قارئین کرام تحریر کے شروع میں جن دو دوستوں کا ذکر کیا تھا ان سے میرے اختلاف رائے اور آپ اپنے دوست احباب سے اپنے اختلاف کے نتائج بھگت چکے ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ اور ماحول بھی ہمیں بخوبی بتا رہے ہیں کہ معمولی سے اختلاف رائے کا نتیجہ کس قدر سنگین نکلتا ہے۔ دوسری طرف مذکورہ گفتگو کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پروفیسر صاحب زچ ہو گئے تھے۔ لیکن نہ صاحب ان کی عظمت دیکھیے، وہ اعلیٰ پائے کے صیاد دانش (talent hunter) بھی تھے. میں ان کے اپنے ادارے میں ان کے تا دم رحلت سات سال سے کام کر رہا ہوں. اپنے دوستوں سے میرے اختلاف اور آپ کے اپنے دوستوں سے اختلاف رائے کے نتائج ذہن میں رکھ کر پروفیسر صاحب کی عظمت کی پیمائش کیجیے، آپ کو کوئی عام سا نہیں، صدیوں بعد پیدا ہونے والا ایک ولی اللہ اپنے سامنے کھڑا ملے گا۔ اور ہاں ٹیلنٹ ہنٹنگ کی ضمیر میری طرف مت لوٹایے۔ پروفیسر صاحب اور اس خاکسار میں وہی نسبت ہے جو کوہ ہمالیہ اور شکر پڑیاں کی پہاڑی میں ہے۔۔