ہوم << اسلام کا قانونِ محنت - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اسلام کا قانونِ محنت - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

دو دن قبل ’اسلام کا قانونِ محنت‘ کے عنوان سے ایک بہت ہی عمدہ کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مخدومی سراج الدین امجد نے مجھے گفتگو کےلیے بلایا تھا، لیکن بعض ناگہانی مصروفیات کی بنا پر میں شرکت نہیں کرسکا۔ اس موقع پر گفتگو کےلیے چند نکات تیار کیے تھے، وہ ’یومِ مزدور‘ کی مناسبت سے پیشِ خدمت ہیں۔

کتاب کے فاضل مصنفین، جناب افتخار احمد اور جناب اصغر جمیل، نے اس موضوع پر صرف علمی تحقیق ہی نہیں کی، بلکہ وہ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ملک کے اندر بھی اور بین اقوامی سطح پر بھی عملی کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے نہ صرف ہر مسئلے پر قرآن، حدیث اور فقہائے کرام و معاصر اہلِ علم کے کام سے تفصیلی حوالے دیے ہیں، بلکہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کےلیے تفصیلی عملی تجاویز بھی دی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اس موضوع پر قانون سازی کےلیے تفصیلی ضابطہ بھی مرتب کرکے دے دیا ہے۔

کتاب میں اسلامی قانون کے مآخذ پر تعارفی گفتگو بھی ہے اور قرآن و سنت میں مزدوروں کے حقوق کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ’مجوزہ قانونی ضابطے‘ کے ابواب کی فہرست سے اس کام کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے: مزدوروں کے بنیادی حقوق، روزگار کے معاہدے، اجرتیں اور معاوضہ جات، کام کے اوقات اور چھٹیاں اور لیبر انسپکشن۔ مزدوروں کے حقوق پر عموماً بات سرمایہ دارانہ اور اشتراکی جدلیات کی رو سے کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر اسلامی تراث سے تفصیلات اکٹھی کرنے کے پہلو سے فاضل مصنفین کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے۔

فقہائے کرام نے اس موضوع کو ابتدا سے ہی بہت اہمیت دی تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی نے اسلامی قانون کی تفصیلی کتاب ’الاصل‘میں نماز، روزہ زکوٰۃ اور دیگر احکام کے علاوہ ایک مستقل حصہ ’کتاب الکسب‘ کے عنوان سے لکھا جس میں محنت، کمائی اور مختلف پیشوں کے متعلق اسلامی احکام واضح کرنے کے علاوہ انھوں نے روزگار کے متعلق معاہدات اور تنازعات کے تصفیے کےلیے بنیادی قانونی اصول بھی بیان کیے۔

سرمایہ داری اور اشتراکی دانشوروں کا ایک بڑا اختلاف ’وسائلِ پیداوار‘پر ہے۔ محنت اور سرمائے کی اس بحث پر زیرِ تبصرہ کتاب میں اچھا مواد موجود ہے، لیکن اگر اس میں فقہی کتب سے اصول مستخرج کرنے کی طرف تھوڑی زیادہ توجہ دی جاتی، تو شاید اس کا فائدہ زیادہ ہوتا۔ مثلاً فقہائے کرام نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کاروبار میں مال بھی لگائے اور اس مال کو پہنچ سکنے والے نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھائے، تو وہ اس کاروبار سے نفع اٹھانے کا مستحق ہوجاتا ہے، لیکن اگر وہ صرف مال لگائے، تو وہ نفع کا مستحق نہیں رہتا، نہ ہی اس مال پر اجرت لے سکتا ہے، بلکہ صرف ’اصل زر’ ہی واپس لے سکتا ہے (یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ’سود‘ کو ’سرمائے کی اجرت‘ کہا جاتا ہے)۔

دوسری طرف کاروبار میں صرف عمل/محنت شامل کرنے والا شخص ’اجرت‘ کا مستحق ہوتا ہے اور اگر عمل/محنت کے ساتھ وہ نقصان اٹھانے کی ذمہ داری بھی اٹھائے، تو وہ نفع کا بھی مستحق ہوجاتا ہے۔ محنت اور سرمائے میں یہ بنیادی فرق بہت اہمیت کا حامل ہے اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے جھگڑے میں یہ اسلام کو ایک بالکل ہی مختلف، اور درمیان، کی پوزیشن پر کھڑا کرتا ہے۔

فاضل مصنفین نے جماعت سازی اور مزدور یونین کے جواز کےلیے ’ایک دوسرے کے ساتھ تعاون‘، ’اجتماعی جدوجہد‘ اور اس طرح کے دیگر اسلامی اصولوں سے استدلال کیا ہے۔ تاہم’انصاف کی گواہی دینے‘ کے اصول پر کماحقہ گفتگو نہیں ہوسکی جس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان فائدے اور نقصان، یا اپنے اور پرائے، کے بجائے ہر معاملے میں حق و انصاف کی رو سے فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ نیز شریعت نے ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانے اور بڑی مصیبت کے وقت ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کےلیے عاقلہ کا نظام دیا تھا۔ یونین کو مزدوروں کی ’عاقلہ‘ قرار دینے کے پہلو پر بھی بات کی ضرورت تھی۔

عاقلہ کا براہِ راست تعلق ’دیت‘ کے ساتھ بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیت کو صرف جرم و سزا کے قانون کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اس میں بھی دیت ادا کرنے کی ذمہ داری تنہا ایک فرد پر عائد کی گئی ہے، حالانکہ قتلِ عمد کے سوا دیگر صورتوں میں دیت کی ادائی کی ذمہ داری شریعت نے عاقلہ پر ڈالی تھی، لیکن ہمارے قانون میں عاقلہ کا تصور ہی غائب ہے۔ استادِ محترم ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کہا کرتے تھے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کی کوششوں میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ سارا زور سزاؤں پر رہا، اور یہ کہ اگر ان قوانین کے تبدیل کرنے کی طرف توجہ کی جاتی جو معاشرے میں ظلم اور استحصال کا باعث ہیں، تو اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا۔

مثلاً استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کا موقف ہے کہ فیکٹری حادثات پر اسلامی قانون کے تصورات ’دیت‘ اور ’ارش‘ کا اطلاق لازم ہے۔ ہمارے ہاں فیکٹری حادثات میں مزدوروں کے زخمی، معذور یا جاں بحق ہونے کی صورت میں ’تلافی‘ کے لیے جو قانون انگریزوں نے سو سال قبل بنایا تھا (Workmen’s Compensation Act 1923) اس کے تحت مزدوروں کو دی جانے والی رقم انگریزی محاورے کے مطابق محض مونگ پھلی کی ہے (مثلاًحادثاتی موت کی صورت میں زرِ تلافی کی مقدار صرف 4 لاکھ روپے ہے)۔ یہ قانون دراصل سرمایہ داران نظام کے تصورات پر مبنی ہے اور اپنی اساس میں استحصالی ہے۔

اس کے برعکس دیت کے قانون کے تحت رواں مالی سال میں جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق حادثانی موت کی صورت میں ادا کی جانے والی دیت کی کم سے کم مقدار 81 لاکھ روپے ہے۔ اس قانون کی رو سے بعض زخموں کی تلافی کی کم سے کم مقدار بھی پہلے ہی سے متعین ہے، جسے ’ارش‘ کہا گیا ہے۔ مثلاً اگر وہ عضو ضائع کیا جائے جو بدن میں ایک ہی ہو (جیسے ناک )، تو اس پر ارش کی مقدار دیت کے برابر ہے ؛ اور اگر وہ عضو ضائع کیا جائے جو بدن میں دو ہوں (جیسے ہاتھ)، تو دونوں اعضا کے ضائع کرنے پر ارش کی رقم پوری دیت اور ایک کے ضائع کرنے پر آدھی دیت کے برابر ہے ۔ انگریزوں کے دیے گئے قانون میں طے کی گئی مقدار کا دیت و ارش کی مقدار سے کوئی موازنہ ممکن ہی نہیں ہے۔

2007ء میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس مدن لوکر نے مجھے کہا کہ وہ فوجداری قانون میں اصلاح پر کام کررہے ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ فوجداری قانون میں پاکستان نے زر تلافی دینے کا سلسلہ کیسے شروع کیا ہے؟ میں نے انھیں تفصیل سے اس قانون کی جزئیات اور اصولوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ باقی دنیا بھی فوجداری قانون کے سیاق میں متاثرین کو زرتلافی ادا کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کا ذکر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور میں بھی آگیا ہے ۔ دنیا اسلامی قانون سے سیکھ رہی ہے لیکن ہم کیوں اب تک استحصال کے شکار مزدوروں کو انگریزوں کی طرف سے مقرر کی گئی مونگ پھلی ہی دینا چاہتے ہیں؟

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment