مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد خطے میں بڑھتی کشیدگی نے ایک بار پھر عالمی توجہ اس دیرینہ مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے مگر افسوس کہ امریکہ جیسے بڑے ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف کشمیر کے تاریخی پس منظر پر لاعلمی کا مظاہرہ کیا بلکہ مسئلے کی سنگینی کو بھی نظر انداز کیا۔ ٹرمپ کا یہ بیان کہ پاکستان اور بھارت ''ہزار سال سے'' کشمیر پر لڑ رہے ہیں، ایک ایسی سفارتی غفلت ہے جو پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے میں جہاں فلسطینی صدر محمود عباس تک بھارت کی سلامتی کی حمایت کر رہے ہیں، پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی سفارتی پالیسی ازسرِنو مرتب کرے، داخلی سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے اور کشمیر کے مقدمے کو عالمی سطح پر مضبوط انداز میں پیش کرے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقت پسندی اختیار کریں، فرد پرستی چھوڑ کر ریاست کو اولیت دیں، اور قومی مفاد کو ہر ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر سمجھیں۔
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردِعمل سامنے آیا۔ صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی طرح اس تنازع کا حل نکال لیں گے۔ صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر کہ آیا وہ دونوں ممالک کے رہنماؤں سے بات کریں گے، صدر ٹرمپ نے واضح جواب دینے سے گریز کیا اور غیر سنجیدہ انداز میں بات کو ٹال دیا۔
صدر ٹرمپ کی گفتگو کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور بھارت ہزار سال سے کشمیر پر لڑ رہے ہیں۔ یہ بیان ان کی سنگین تاریخی لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر 1947 میں تقسیم ہِند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ افسوس کہ ائیر فورس ون میں موجود کسی صحافی نے بھی صدر ٹرمپ کی اس غلطی کی تصحیح کی زحمت نہ کی، جس سے نہ صرف امریکی قیادت بلکہ عالمی صحافت کی سنجیدگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔
امریکی صدر کی لاعلمی پر محض مایوسی کا اظہار کافی نہیں بلکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ یا کسی دوسری عالمی طاقت سے کسی غیر مشروط حمایت کی توقع رکھنا اب محض خوش فہمی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم داخلی سیاست میں بھی اتنے غیر سنجیدہ ہو چکے ہیں کہ کشمیر جیسے حساس مسئلے سے نابلد صدر ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی امیدیں وابستہ کر بیٹھے تھے۔ بانی تحریکِ انصاف کے حامی اپنے رہنما کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ گمان کرتے تھے کہ امریکہ ان کی رہائی کے لیے خصوصی دلچسپی لے گا حالانکہ ماضی میں اسی امریکہ پر بانی تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا الزام لگایا جا چکا تھا۔
آج جب کشمیر کے حوالے سے ٹرمپ کی معلومات اور دلچسپی کا عالم سامنے آیا ہے تو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ عالمی سطح پر فرد واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بانی تحریک انصاف کے لیے عالمی برادری سے کوئی مؤثر آواز بلند نہیں ہوئی۔ ان کے حامیوں نے ضرور بھرپور لابنگ کی، لیکن بعض اوقات یہ کوششیں ملکی وقار اور مفاد کے منافی ثابت ہوئیں۔ یہ وہی سوچ ہے جس نے انہیں گرفتاری سے پہلے خود کو 'ریڈ لائن' قرار دینے پر آمادہ کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستیں کسی فرد واحد کے نہیں بلکہ آئین و قانون کی ریڈ لائن کے تحت چلتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں سے جیل کا راستہ نیا نہیں۔ سیاست میں گرفتاری اور رہائی کا عمل عدالتی نظام کے تحت طے ہوتا ہے۔ احتجاج اور ہنگامہ آرائی کبھی بھی حقیقی ریڈ لائن یا ڈیڈ لائن ثابت نہیں ہو سکتیں۔ ریاست سب سے مقدم ہے اور اس کی مضبوطی آئین کی بالادستی اور قومی اتفاق رائے میں پوشیدہ ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان آج جن مشکلات سے دوچار ہے، ان کی ذمہ داری کسی ایک فرد، ادارے یا جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ ایک اجتماعی قومی عمل کا نتیجہ ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، مگر قومی سلامتی اور ریاستی وقار پر مکمل ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھا بلکہ کشمیری عوام کے بنیادی حقوق پر بھی کھلا حملہ تھا۔ اس موقع پر پاکستان کی طرف سے محض چند منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور علامتی احتجاج پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ اس وقت عالمی برادری کو زور دے کر یہ پیغام دینا چاہیے تھا کہ کشمیر ہماری ریڈ لائن ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس امتحان میں بھی کمزور ثابت ہوئے۔
ایسے میں ایک نیا افسوسناک پہلو یہ سامنے آیا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط ارسال کر کے بھارت کی خود مختاری، سلامتی اور استحکام کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا۔ اپنے خط میں انہوں نے پہلگام حملے کی شدید مذمت کی اور بھارت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا پیغام دیا۔ محمود عباس کے اس اقدام نے واضح کر دیا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ کس حد تک تنہا ہو چکا ہے۔ جب ایک مظلوم قوم کا رہنما بھارت کی حمایت کرتا نظر آئے تو ہمیں اپنے سفارتی محاذ پر نئے سرے سے حکمت عملی بنانی پڑے گی۔
یہ سچ ہے کہ بھارت دنیا بھر میں اپنی معیشت، مارکیٹ اور سفارتی لابنگ کے ذریعے اپنے بیانیے کو فروغ دے رہا ہے جبکہ ہم داخلی خلفشار اور سیاسی انتشار میں الجھے ہوئے ہیں۔ کشمیر پر دنیا کی بیحسی اور ٹرمپ جیسے عالمی رہنماؤں کی لاعلمی ہمیں مزید چوکس کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ ہمیں اس وقت اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے، چاہے ہمیں عالمی سطح پر مکمل حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔ کشمیریوں کی قربانیاں اس امر کی متقاضی ہیں کہ ہم ان کا مقدمہ پوری قوت سے ہر عالمی فورم پر لڑیں۔
ریاست پاکستان کی بقاء آئین کی بالادستی اور قومی اتفاق رائے سے وابستہ ہے۔ اگر ہم نے قومی وحدت، سفارتی حکمت عملی اور داخلی استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنایا تو نہ صرف کشمیر پر مؤثر آواز اٹھا سکیں گے بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کرا سکیں گے کہ پاکستان اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرے گا۔ ریاست سب سے پہلے ہے، فرد بعد میں آتا ہے۔ کشمیریوں کے خون کا قرض بھی اسی صورت میں ادا ہو گا جب ہم اپنی قومی ترجیحات میں واضح اور دو ٹوک ہوں گے۔ریاست پاکستان کو اب مزید کسی مغربی یا مسلم ملک کی بے جا حمایت پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے اصولی مؤقف اور عوامی قوت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے لیے سیاسی مصلحت یا وقتی تعلقات قربان نہیں کیے جا سکتے۔ اگر ہم ثابت قدم رہے، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی بلکہ سرخرو کرے گی۔مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے خود اجاگر کرنا ہوگا، کیونکہ خاموش تماشائیوں سے تاریخ کبھی انصاف نہیں کرتی۔عالمی سطح پر مؤثر اور مسلسل آواز بلند کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ امریکہ ہو یا کوئی اور طاقت، ہمیں اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے رہنا ہے، تاکہ تاریخ میں اپنا سر فخر سے بلند رکھ سکیں۔
تبصرہ لکھیے