ڈاکٹر عارف علوی کا حالیہ بیان کہ “عمران خان پیغمبروں سے بھی زیادہ مقبول ہو گئے ہیں” چاہے محض ایک لغزش ہو، مگر یہ بیان ایک ایسی فکری گمراہی کو عیاں کرتا ہے جو موجودہ پاکستانی سیاست میں شدت کے ساتھ پنپ رہی ہے یعنی شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کا فتور۔
سیاست، اگر دینی ہو، تب بھی اندھی تقلید جائز نہیں۔ دین میں اطاعت شعور سے مشروط ہے، نہ کہ جذبات سے۔ اگر سیاست دین کے دائرے میں ہو تو ایمان و احتساب کا امتزاج ضروری ہے یعنی اطاعت کے ساتھ پرکھنا، ساتھ کے ساتھ سوال اٹھانا، اور اصلاح کا در کھلا رکھنا۔ اور اگر سیاست سیکولر یا لبرل بنیادوں پر استوار ہو، تو اس کا تجزیہ محض دنیاوی پیمانوں پر کیا جانا چاہئے کارکردگی، نظریاتی مطابقت، اور اخلاقی معیار کی بنیاد پر۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست، بالخصوص عمران خان کے گرد، اب ایک نئی “مذہبیت” اختیار کر چکی ہے۔ ان کے پیروکاروں کے ہاں وہ محض سیاسی رہنما نہیں، بلکہ ایک نجات دہندہ، مہاتما، اور بعض اوقات (نعوذباللہ) روحانی مقام کے حامل شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا فوراً “ایمان” کے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ان کے صبح کے فیصلے شام تک یوٹرن ہو جائیں، تو بھی ان کی ہر بات “حکمت” اور “بصیرت” بن جاتی ہے۔
خود عمران خان کے بیانات بھی اس ذہنی کیفیت کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ “جس طرح رسول اللہ ﷺ کو تیار کیا گیا، مجھے بھی ویسے ہی تیار کیا گیا”، نرگسیت کا مظہر ہے۔ ایسا رویہ کسی بھی سیاسی رہنما کو عقل و احتساب سے بالاتر بنا دیتا ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔
یہ رجحان صرف سیاسی نہیں، بلکہ سماجی پولرائزیشن اور فکری جمود کو بھی جنم دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود شدت پسندانہ بیانات، جن میں خان صاحب کو انبیاء سے بلند مقام دیا جا رہا ہے، ایک خطرناک فکری زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرزِ سیاست میں اختلاف کو بغاوت، سوال کو گستاخی اور احتساب کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔
سیاست کا مقصد اگر قوم کی رہنمائی ہے تو یہ شعور، برداشت، اور مکالمے کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر کسی جماعت یا لیڈر کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے، تو وہ قیادت نہیں بلکہ عبادت بن جاتی ہے۔ اور جب عبادت کا مرکز خدا کے بجائے انسان بن جائے، تو وہ شرکِ فکری کی طرف لے جاتی ہے۔
حرفِ آخر!
عمران خان کے حامیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا لیڈر ہو، بالآخر ایک انسان ہے جو خطاؤں کا پتلا ہے، جس سے غلطیاں اور گناہ ممکن ہیں۔ ان کی شخصیت، کردار اور سیاسی پالیسیوں میں تضادات موجود ہیں، اور وہ عالمی سطح پر بھی ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں اسی انسانی دائرے میں رکھنا ضروری ہے۔ ان کے فیصلوں کو پرکھنا، سوال اٹھانا، اور تنقید کے کلچر کو فروغ دینا نہ صرف دینی شعور کا تقاضا ہے، بلکہ خود جماعت کی بہتری اور ان کی کارکردگی کو نکھارنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
جو قومیں اپنے رہنماؤں کو فرشتے بناتی ہیں، وہ کبھی ان سے حساب نہیں لے سکتیں۔ اور جو قومیں سوال سے ڈرتی ہیں، وہ صرف پیروکار پیدا کرتی ہیں، شہری نہیں۔
تبصرہ لکھیے