ہوم << وٹامن ڈی کیوں ضروری اور کمی کیسے پوری ہو؟ اقدس شاہد

وٹامن ڈی کیوں ضروری اور کمی کیسے پوری ہو؟ اقدس شاہد

ہڈیوں کی کمزوری، نظر کی کمزوری، تھکن،نیند کے مسائل، یہ سب اب عمر رسیدہ ہی نہیں بلکہ جوانوں کے بھی مسئلے ہیں۔ جسے دیکھو وہ توانائی کی کمی، جسمانی تھکن کا شکار اور تیس یا چالیس سال کی عمر میں ہڈیوں یا دانتوں کی بیماری میں مبتلا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ ان سب مسائل کے لیے کیلشیم کی کمی کو مورد الزام ٹھہراتے تھے، لیکن جدید تحقیقات نے ثابت کیا کہ مسئلے کی اصل جڑ تو حیاتین ڈی کی کمی ہے۔

تھکن یا کمزوری، بالوں کا جھڑنا،بار بار بیمار ہونا یا مزاج برہم رہنا،زخموں کا دیر سے بھرنا، نیند کی کمی، ہاضمہ کی خرابی، پٹھوں کی کمزوری یا جسم میں سوئیاں چبھنا، یہ سب یا ان میں سے کچھ اگر عیاں ہوں تو یہ حیاتین ڈی کی کمی کی علامات ہوسکتی ہیں۔

وٹامن ڈی ہڈیوں کی صحت کے لیےنہایت ضروری اور پٹھوں کی تحریک کے لیےاز حد اہمیت کا حامل ہے، ایک حالیہ تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی نہ صرف کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے بلکہ مدافعتی نظام میں بہتری بھی لاتا ہے۔ مزید برآں جسمانی ڈھانچے کی سختی و سالمیت کو برقرار رکھتا ہے۔ وٹامن ڈی ہماری صحت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہ جتنا ہمیں درکار ہے، اتنا ہماری روزمرہ خوراک یا سورج کی روشنی جسم تک براہ راست پہنچنے سے حاصل ہو جاتا ہے ۔ لیکن اب غذا متوازن اور خالص رہی ہے نہ دھوپ کھانے کی عادت عام۔ اس لیے اس کی عام ہوتی کمی کو پورا کرنے کے لیے ادویات کا سہا را لیا جانے لگا ہے۔

تو حیاتین ڈی کی کتنی مقدار روزانہ لینا ضروری ہے؟
برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر کے مطابق چار سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد کو روزانہ ۴۰۰ انٹرنیشنل یونٹ یا ۱۰ مائیکروگرام وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر یہ حیاتین مصنوعی ذریعہ سے حاصل کیا جائے تو کیا اس کے فوائد خوراک سے حاصل ہونے والے حیاتین جیسے ہی ہوں گے؟
اگر وٹامن ڈی کو خوراک کے ذریعے حاصل کیا جائے توحیاتین بہتر طور پرجذب ہوتے ہیں اور ان کی مقدار زیادہ ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ اگر ہم وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے متوازن خوراک لیں تو اضافی غذائی اجزاء بھی حاصل کرتے ہیں ، یعنی اضافی فائدہ۔لیکن اس کے باوجود خوراک کے ذریعے وٹامن حاصل کرنے کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ جیسے کہ یہ کھانے زیادہ کیلوری والے ہوتے ہیں اور جسم کوحیاتین ڈی کی جتنی مقدار کی ضرورت ہو، اتنی مقدار حاصل نہ کر پانے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔

اگر کوئی انسان حیاتین کی کمی کا شکار ہو تو ادویات کے ذریعےیہ کمی پوری کی جا سکتی ہے تاہم لمبے عرصے تک ادویات لینے سےمجوزہ مقدار سے زیادہ لینے کا خطرہ ہوتا ہے اور ضمنی اثرات جیسے کہ گردے یا کلیجہ پر بھی مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی کی ادویات سے الرجی اور دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔لہذا طبیب سے مشورہ کیے بغیر ادویات کا استعمال بجائے فائدہ کے نقصان بھی دے سکتا ہے۔

لیکن ادویات کی ضرورت ہی کیوں ہو؟
اس کی وجہ ہمارے کھانوں میں کم ہوتی غذائیت ہے۔ وٹامن ڈی کی مجوزہ مقدار خوراک میں شامل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ غیر متوازن غذا کا استعمال ہے ۔ا کثر افراد ایک صحت بخش غذا کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ متوازن غذا کے متعلق جان نہیں پاتے، جس کے باعث ان کی خوراک میں کوئی نہ کوئی غذائی کمی رہ جاتی ہے۔

تاہم یہ ضروری ہے کہ وٹامن ڈی کے کچھ اہم قدرتی ذرائع چربی والی مچھلی ، سرخ گوشت، انڈے کی زردی، کلیجی، دودھ، خصوصاً گائے کا دودھ اور اس سے بنی اشیاء، بادام اور مشروم وغیرہ کوہمیشہ اپنی غذا کا ایک حصہ بنائے رکھا جائے ۔ لیکن ان سب سے اہم دھوپ ہے ۔دھوپ وٹامن ڈی کا قدرتی ذریعہ ہے، شرط یہ ہے کہ یہ جِلد تک بلاواسطہ پہنچے۔ تاہم سخت دھوپ کے وقت میں دھوپ میں جانا بجائے فائدے کے نقصان دے سکتا ہے۔ ماہرین اس ضمن میں بتاتے ہیں کہ صبح سویرےیا شام ڈھلے کی دھوپ وٹامن ڈی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔