ہوم << نوجوانوں کے لیے قرض کا نیا جال؟ نجیب خان

نوجوانوں کے لیے قرض کا نیا جال؟ نجیب خان

یہ سب ایک سہولت کی صورت میں شروع ہوا، لیکن اب یہ سہولت ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کا اصل نشانہ ہماری نوجوان نسل ہے، خاص طور پر Gen Z، جو پہلے ہی بے یقینی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ Buy Now Pay Later یعنی "اب خریدیں اور بعد میں ادائیگی کریں" جیسی خدمات خاموشی سے پاکستان کے ڈیجیٹل مالیاتی نظام میں جگہ بنا چکی ہیں۔ بظاہر یہ سہولتیں ایک نعمت لگتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا مالیاتی جال بن چکی ہیں جو مستقبل میں معاشی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میں JazzCash اس وقت ان سہولتوں میں سب سے نمایاں نام ہے۔ وہ مائیکرو لون، آسان اقساط، اور پوائنٹس جیسی پیشکشیں فراہم کرتے ہیں جو عام صارف کے لیے بہت دلکش معلوم ہوتی ہیں۔ Easypaisa سمیت دیگر ایپلیکیشنز بھی اسی ماڈل پر کام کر رہی ہیں۔ شروع میں پانچ ہزار روپے کا قرض لینا معمولی بات لگتی ہے، مگر اصل پریشانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے اور قرضوں کی رقم بڑھنے لگتی ہے۔

مثال کے طور پر ایک یونیورسٹی کا طالبعلم JazzCash سے پانچ ہزار روپے کا قرض لیتا ہے۔ وہ مقررہ قسطیں ادا کرتا ہے اور دوبارہ قرض لے لیتا ہے۔ یہی عمل بار بار دہرا کر اس کا مجموعی قرض بیس ہزار روپے سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ پھر وہ قسطیں ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور قرض ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگتا ہے۔ وہ ایک ایسے مالیاتی چکر میں پھنس چکا ہوتا ہے جس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ اور یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ آج ہزاروں نوجوان روز انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں نوجوان، خصوصاً طالبعلم اور نئے ملازمت پیشہ افراد، BNPL، موبائل قرضوں اور ایپ بیسڈ قرض کی سہولتوں کے ذریعے لاکھوں روپے کے قرض میں گھر چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس حد تک مالیاتی دباؤ کا شکار ہو جائیں گے، لیکن آسان رسائی، صارف دوست انٹرفیس، اور مالی شعور کی کمی نے انہیں اس دلدل میں اتار دیا۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ امریکہ میں 2025 کے Coachella میوزک فیسٹیول کے ساٹھ فیصد ٹکٹ قسطوں پر خریدے گئے۔ جو سہولت پہلے صرف مہنگی اشیاء جیسے گاڑی یا گھر کی خریداری کے لیے مخصوص تھی، وہ اب عام کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے، اور روزمرہ کے اخراجات پر بھی استعمال ہو رہی ہے۔ 2023 میں امریکہ کے نصف سے زیادہ Gen Z نوجوان BNPL سروسز استعمال کر چکے تھے، اور ماہرین کے مطابق 2027 تک دنیا بھر میں اس نظام پر تقریباً 450 بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔

لیکن قرض چاہے پانچ سو روپے کا ہو یا پچاس ہزار کا، قرض آخر قرض ہی ہوتا ہے۔ اور پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، نوکریوں کی کمی ہے، اور بنیادی ضروریات عام انسان کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، وہاں اس طرح کا رجحان نوجوانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک نسل جو پہلے ہی معاشی غیر یقینی کی لپیٹ میں ہے، اب وہ ڈیجیٹل قرض کے اس چکر میں بھی الجھتی جا رہی ہے جس سے نکلنا دنوں یا ہفتوں کا نہیں بلکہ مہینوں اور برسوں کا سفر بن جاتا ہے۔

سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ لوگ یہ جملہ عام طور پر بولنے لگے ہیں کہ زندگی اب پہلے جیسی آسان نہیں رہی۔ اور واقعی جب ہر معمولی چیز کی خریداری مستقبل کی قسطوں سے مشروط ہو جائے تو زندگی کی سادگی باقی نہیں رہتی۔ یہ ایپس صرف قرض نہیں دے رہیں بلکہ وہ آپ کی زندگی میں ایک مستقل دباؤ شامل کر رہی ہیں۔ آج جو رقم معمولی لگتی ہے، کل کو وہی ایک پہاڑ بن سکتی ہے۔

اصل سوال یہ نہیں کہ BNPL فائدہ مند ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کیا ہے۔ ہم اب خواب نہیں بلکہ کھانے، کپڑے اور سواریاں بھی قرض پر خرید رہے ہیں۔ اور جتنا آج کا بوجھ ہلکا لگتا ہے، کل وہی بوجھ ہماری کمر توڑ سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نوجوانوں میں مالیاتی آگاہی کو فروغ دیں، ڈیجیٹل صارف اخلاقیات پر کھل کر گفتگو کریں اور اس بات کو سنجیدگی سے لیں کہ سہولت اور فریب میں فرق سمجھایا جائے۔ اگر ہم نے یہ قدم آج نہ اٹھایا تو یہ قرض نہ صرف ہمارے آج کو بلکہ ہمارے کل کو بھی نگل جائے گا۔