ہوم << والدین کے ساتھ حسن سلوک - اقرأ سحر

والدین کے ساتھ حسن سلوک - اقرأ سحر

یوں تو انسانی زندگی میں رشتے ناطوں کی بھرمار ہے چاہے وہ خونی رشتے ہوں، اقرباء ہوں، یا دور پار کے یا آس پڑوس میں رہنے والے یا پھر سفر یا کاروبار کے دوران بننے والے۔ ان سب ہی رشتوں کے کچھ نہ کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں جن کی ادائیگی انسان پر لازم ہے۔ لیکن ان تمام رشتوں میں سب سے عظیم اور اول درجے کا رشتہ والدین کا ہے۔ یہی وہ رشتہ ہے جسکی وجہ سے انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے، نشوونما پاتا ہے، تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے اور پھر اس مقام کو پہنچتا ہے کہ بذات خود اپنا خاندان پروان چڑھا سکے۔

ہزارہا برسوں کے مشاہدہ سے ثابت بھی یہی ہے کہ اگر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسان کا کوئی سچا ہمدرد اور محسن ہے تو وہ بلاشبہ والدین ہیں۔ باقی تمام رشتے کسی نہ کسی غرض کے سبب منسلک ہوتے ہیں۔ جوں ہی وجہ تعلق کمزور پڑا یا انسان کسی مصیبت میں گفتار ہوا، بعید نہیں کہ رشتہ بھی منقطع ہو گیا یا کم از کم روابط میں خلل واقع ہو گیا۔ جبکہ ماں باپ اور اولاد کے رشتہ کی نوعیت سب سے منفرد ہوتی ہے۔ یہ تعلق ابد تک قائم رہتا ہے خواہ فرزند کتنا ہی نافرمان کیوں نہ ہو، والدین کے لیے وہ جگر کا گوشہ ہی رہتا ہے، وہ کبھی بھی اس سے قطع تعلق نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے ہدایت اور رحمت کے دعاگو رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے متعدد بار قرآن میں ان کے حقوق واضح کرتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ اختیار کرتے وقت انسان کو ہدایت و تنبیہ کی ہے۔ چنانچہ سورۂ الاحقاف، آیت نمبر 15 میں ارشاد باری تعالی ہے: "اس ماں نے تکلیف میں اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا"۔ گو کہ اس آیت کریمہ میں ماں کی مشقت اور جسمانی تکلیف کا ذکر خداوند نے براہِ راست کیا ہے لیکن اس سے قبل دونوں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ کیونکہ اگر ماں جسمانی اذیت سہتی ہےتو باپ دوسری جانب اولاد کی آسائش و تربیت کی خاطر اپنا آرام، سکون اور جوانی قربان کر دیتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ ایک اور مقام پر اللہ نے اپنی وحدانیت پر ایمان اور عبادت کے حکم کے فورا بعد ماں باپ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے اور ان کے سامنے اف تک کہنے کو سختی سے منع فرمایا ہے، لہذا ارشاد ہوتا ہے: "اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا" (سورۂ الاسراء، آیت نمبر 23) مزید برآں ان پر رحم کی دعا بھی کرنے کا کہا گیا ہے۔

لہذا نتیجہ کلام یہ ہے کہ انسانی فلاح خدا کی بندگی کے بعد والدین کی اطاعت میں ہے۔ کیونکہ وہ محض اسکے وجود کا سبب ہی نہیں بلکہ وہ جس مقام و درجے پر پہنچا، اس نے جو کچھ حاصل کیا، جو نام کمایا، یہ سب ان دونوں کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ ان سے شفقت و انکساری کا رویہ اختیار کرے، خوب خدمت کرے اور اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ان کی رضا اور دعائیں حاصل کرے کیونکہ حدیث نبوی ہےكہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اللہ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے" (ترمذی شریف، 1821). اب اس کے بعد انسان کے پاس کیا عذر بچتا ہے کہ وہ والدین کی خدمت نہ کرکے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کمائے اور آخرت بھی گنوائے۔