خاکسار نے جب سے قرطاس و قلم سے تعلق استوار کیا ہے، تب سے سید ابو الاعلی مودودی رح کا اک جملہ پلو سے باندھ کر رکھا ہوا ہے۔مولانا مودودی رح نے کہا تھا کہ "مناظرہ وہ بلا ہے جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں۔"
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ "ہمارا طریقہ جھگڑے اور مناظرے کرنا نہیں ہے، اگر کوئی شخص ہماری بات کو سیدھی طرح سمجھنا چاہے تو ہم ہر وقت اُسے سمجھانے کےلیے حاضر ہیں، اور اگر کوئی ہماری غلطی ہمیں معقول طریقے سے سمجھانا چاہے تو ہم سمجھنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اگر کسی کے پیش نظر محض اُلجھنا اور اُلجھانا ہی ہو تو اس سے ہم کوئی تعرض کرنا پسند نہیں کرتے، اسے اختیار ہے کہ جب تک چاہے اپنا شغل جاری رکھے."
اس لیے کسی شخص کو موضوع سخن بنا کر کوئی تحریر نہیں لکھتا ہوں ۔نہ کسی شخص کا نام لے کر ۔جب بھی غمِ روزگار سے فرصت ملتی ہے، کسی موضوع پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
انسانی نفسیات سے مربوط تین بیماریاں نہایت مہلک ،اور ضرر رساں ہیں۔اگر ان کی تشخیص نہ ہو تو فکری طور پر انسان کو مفلوج کر دیتی ہیں۔
اک مرعوبیت، دوسری خوش فہمی، تیسری بدہضمی ۔
مرعوبیت کی وجہ سے مسلمانانِ عالم بالخصوص برِصغیر کے مسلمانوں کی جو حالت ہوئی ہے وہ اربابِ فکر و نظر سےمخفی نہیں ۔تہذیب و تمدن، اقدار و ثقافت کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بھی زوال کا شکار اور جمود طاری ہے۔ اس کے نتیجے میں جس قوم سے مرعوب ہے اس قوم کا ہر حرف و سخن شیریں،ہر فعل وعمل زیبا،ہر فکر و نظر رسا لگتی ہے۔اور ہر چیز کو اسی مرعوبیت کا جامہ پہنا کر دیکھنے،سوچنے ،سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مجھے شدید دکھ ہوتا ہے جب کوئی کسی سے مرعوب ہو کر ہر چیز کو اسی کی نظر سے جانچنے،پرکھنے ،کی کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح خوش فہمی انسان کو اپنی اصلیت سے غافل رکھ کر کسی تخیُّلاتی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں خود پر غور کرنے سے زیادہ دوسروں پر تنقید و تنقیص کرنے میں وقت صرف کرتا ہے۔
اسی طرح بدہضمی کی بیماری بھی نہایت مہلک بعض وقت لاعلاج بھی ہے۔اگر کسی کو بدہضمی کی بیماری لگی ہے۔ تو جسمانی و فکری طور پر بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔اگر یہ بدہضمی فکر و نظر کے لحاظ سے ہو تو اور بھی سخت مرحلہ ہے۔جس سے کسی طبیب روحانی ،عامل صمدانی کی صحبت کے بغیر شفایابی ممکن نہیں۔اس کے نتیجے میں ہر اس بات کو اظہار کرنے لگ جاتا ہے جس پر برسوں علمی مراقبہ و فکری خلوت نشینی کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تینوں بیماریاں فی زمانہ نہایت تیزی اور سُرعت کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کی عفریت اعظم نے ہر ایرے غیرے کو خوش فہمیوں کی مہیب کنویں میں دھکیل دیا ہے۔ہر شخص مفتی اعظم،مفکر اعظم ،محقق اعظم ،مناظر اعظم، نہیں معلوم کن کن خوش فہمیوں کے خوش نما وادیوں میں سر بکف ہو کر سرگرداں ہے۔ نہ لفظوں کے انتخاب کا معلوم ہے۔نہ ادب آدابِ گُفتگو سے آشنا۔دو لفظ کیا لکھنے آئے، حقیقت سے عاری باتیں لکھنا شیوہ بن گیا،دو لفظ کیا بولنے آئے شتر بے مہار کی طرح بولنے لگ جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمیں اس خوش فہمی کی بیماری نے اپنی اوقات ،حدود و قیود سے نا آشنا،اپنی ذمہ داری سے لا پروا کردیا ہے۔
تبصرہ لکھیے