جب کوئی انسان دولتِ عامہ کے کسی منصب پر فائز کیا جاتا ہے، تو گویا اُسے ایک ایسی امانت سونپی جاتی ہے، جس کے تقاضے محض دفتری کارگزاری سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔ یہ محض ایک روزگار نہیں بلکہ ایک بارِ امانت ہے، جس کے ذمے دار کے ہاتھ میں ریاست کا اعتماد، ملت کی عزت اور عوام کی امیدیں تھمائی جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی فرد، خواہ وہ ادنیٰ درجہ کا بابو ہو یا اعلیٰ ترین منصب پر فائز صاحبِ اختیار، اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے عوض کسی شخص سے مٹھائی، تحفہ، چائے، نیاز یا کسی اور صورت میں کسی بھی نوعیت کی نوازش قبول کرتا ہے، تو درحقیقت وہ نہ صرف اپنے ضمیر کو بیچ رہا ہوتا ہے بلکہ اُس منصب کو داغدار کر رہا ہوتا ہے جس پر اُسے متمکن کیا گیا ہے۔
ایسے اہلکار اگرچہ یہ عذر پیش کریں کہ یہ محض اظہارِ تشکر ہے، یا یہ معمول کی خاطر مدارت ہے، یا پھر یہ "رسمِ دنیا" ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ اور ضمیرِ انسانی کی عدالت میں یہ سب حیلے محض خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ جب کسی ادارے نے آپ کو وقت کے بدلے معاوضہ، یعنی تنخواہ، طے کر کے دی ہے تو وہ تمام خدمات، جو اس دائرہ کار میں آتی ہیں، محض اسی تنخواہ کے بدلے فرض ہو جاتی ہیں۔ پھر اس پر کسی اور سے کوئی عطیہ یا پذیرائی، خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، لینا اُس امانت میں خیانت کے مترادف ہوتا ہے جسے قرآن کریم نے "خیانت" کے نام سے سخت وعید کے ساتھ یاد کیا ہے۔
مزید برآں، ہمارے معاشرے میں یہ معمول بن چکا ہے کہ "چائے پانی" یا "مٹھائی" کا لفظ محض علامت بن کر رہ گیا ہے اُس رشوت کی، جو قانون کے پردے میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے۔ کبھی یہ کام کروانے والے کی جانب سے پیش کی جاتی ہے، تو کبھی خود اہلکار کی زبان سے تقاضا کی صورت میں صادر ہوتی ہے۔ اور دونوں ہی صورتوں میں، چاہے وہ ہدیہ کی شکل میں ہو یا شکریے کے اظہار کے نام پر، اس کا لینا دینا عند اللہ حرام اور معاشرتی لحاظ سے ناسور ہے۔
یہ وہ روایات ہیں جو بتدریج پورے نظام کو کھوکھلا کرتی ہیں۔ ایک اہلکار اگر کسی مجبور و لاچار شہری سے اپنے کام کے عوض کسی معمولی چیز کا بھی تقاضا کرتا ہے تو وہ اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے۔ ایک بوڑھا، جو گھنٹوں قطار میں لگا ہو، اگر فائل آگے بڑھانے کے لیے آپ کی میز پر مٹھائی یا سفارش نہ رکھ سکے تو آپ کی نظروں میں اس کی فریاد کی کوئی قیمت نہیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیسا قانون ہے؟
یاد رکھیے، دینِ اسلام نے جو نظامِ عدل ہمیں دیا ہے، اُس میں خلوصِ نیت، امانت و دیانت، خدمتِ خلق اور عدل و احسان بنیادی ستون ہیں۔ جنہیں اللہ رب العزت نے سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے چُن لیا، اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات کو ہر قسم کے ذاتی مفاد، حرص، طمع، اور شکریہ نما تحائف سے بالاتر رکھیں۔ جو فرد کسی حاجت مند کی بےبسی کو کیش کر کے چائے یا مٹھائی کی صورت میں "خوشی" سمیٹتا ہے، وہ درحقیقت اپنی آخرت کا سودا کرتا ہے۔
بزرگانِ دین فرماتے ہیں:
"جو امانت میں خیانت کرے، اُس کے لیے حشر کے دن روشنی، نجات اور شفاعت حرام ہے۔"
تو جو شخص سرکاری کام کی انجام دہی کے عوض کچھ بھی زائد قبول کرے، وہ نہ صرف شریعت کی روشنی سے محروم رہتا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔
لہٰذا، ہر صاحبِ اختیار، ہر سرکاری اہلکار، ہر کلرک اور ہر افسر کو اپنے ضمیر کے آئینے میں جھانک کر یہ سوال کرنا چاہیے کہ
"کیا میں اس رزقِ حلال کے ساتھ خیانت کر رہا ہوں؟"
اپنے ماتحت افراد کو بھی یہ تعلیم دینی چاہیے کہ "مٹھائی" یا "چائے پانی" کی اجازت نہ دیں، اور اگر کوئی لا کر رکھ بھی دے تو اُسے واپس کر دیں، کہ یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ بنے گا۔
تبصرہ لکھیے