21 اپریل تاریخ کا وہ دن ہے جب امتِ مسلمہ ایک دردمند دل، ایک صاحبِ بصیرت شاعر، اور ایک سچے مفکر سے محروم ہوئی۔ شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا، ان کی فکر صرف برصغیر تک محدود نہ تھی۔ ان کی شاعری، تحریریں اور تقاریر پوری امتِ مسلمہ کے دکھوں کی ترجمان تھیں۔ خاص طور پر فلسطین کا درد، ان کے کلام میں بارہا آشکار ہوتا ہے۔
فلسطین… وہ سرزمین جس سے انبیاء کی خوشبو آتی ہے، جہاں قبلۂ اول واقع ہے، جہاں آج بھی مظلومیت بہ شکلِ خونِ مسلم بہتی ہے—اقبال کے دل میں اس مقدس مقام کی عظمت بھی تھی اور اس کے لیے بے پناہ تڑپ بھی۔
اقبال نے 1930 کی دہائی میں، جب فلسطین پر یہودی قبضے کی سازشیں ہو رہی تھیں، اس مسئلے کو محض سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ دینی و ایمانی فریضہ سمجھا۔ ان کا یہ قول تاریخی حیثیت رکھتا ہے: "مسلمانوں کو فلسطین کے مظلوم بھائیوں کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، یہ صرف ایک قوم کا نہیں، پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔"
ان کا یہ درد شاعری میں یوں بولتا ہے:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اقبال نے مغرب کی چالاکیوں اور امت کی غفلت کو نہ صرف پہچانا بلکہ ان خطرات سے خبردار بھی کیا۔ وہ جانتے تھے کہ امت اگر اپنی اصل سے کٹ گئی، تو نہ صرف قبلہ اول بلکہ پورا اسلامی ورثہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
آج، جب فلسطین کی گلیوں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں، جب معصوم بچوں کے سسکتے چہرے ہمیں جھنجھوڑ رہے ہیں، اور مسجد اقصیٰ کی دیواریں ظلم کی گواہ بنی کھڑی ہیں—تو 21 اپریل ہمیں اقبال کی یاد کے ساتھ ان کے خواب کی تعبیر کی طرف بھی بلاتا ہے۔
کیا ہم واقعی اقبال کے فکری وارث ہیں؟ کیا ہم فلسطین کے لیے وہ آواز بن سکے جس کا تقاضا اقبال نے کیا تھا؟ کیا ہم نے اپنی خوابیدہ امت کو جھنجھوڑا، جیسا کہ اقبال نے کیا؟
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اقبال صرف ماضی کی ایک یادگار نہیں، بلکہ حال کا پیغام اور مستقبل کا راستہ ہیں۔ اگر ہم واقعی اُن کی فکری میراث کو سنبھالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فلسطین کی آزادی کو اپنی ذمہ داری سمجھنا ہوگا۔
اقبال کی فکر کو زندہ رکھیے،
فلسطین کی آواز بنیے،
اور امت کی بیداری کی راہ پر قدم بڑھائیے۔
اقبالیہ خراج
اقبال تم نہ تھے فقط اک شاعرِ وقت
تم تو تھے امت کے دل کی دھڑکن
آج بھی جب اقصیٰ پر گرتا ہے خونِ مسلم
تو تیری آواز دلوں میں جاگتی ہے
ہم شرمندہ ہیں اے دیدۂ بیدار!
کہ ہم تیرے خواب کو تعبیر نہ دے سکے
تبصرہ لکھیے