ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ صدرِ پاکستان جنرل ایوب خان جاپان تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے ایک بنڈبے جیسی ایجاد کا مشاہدہ کیا جس کی سکرین پہ تصویریں متحرک ہوتی تھیں۔ ایقب خان بھی کروڑوں مسلمانوں کی طرح یورپ و مغرب کی سائینسی بالادستی سے غیرمشروط مرعوبیت کے قائل تھے لہذا اس ایجاد سے اپنی قوم کو رُوشناس کرانے کا عزم بالجزم کرلیا تب شاید ان کے وہم وگُمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ ٹی وی اس معاشرے میں کیا کیا کرشمے دکھائے گا۔
اتفاق سے پی ٹی وی کو آغاز میں محنتی اور مخلص افرادِ کار دستیاب ہوئے تب نشریات بھی لچر پن سے پاک تھیں۔ اشفاق احمد ،شوکت صدیقی،امجد اسلام امجد، فاطمہ ثریا بجیا،میرزاادیب ،انورمقصود اور یونس جاوید کے لکھے ڈراموں نے معاشرے میں انسانی ہمدردی، عظمتِ کردار، روایات کی پاسداری، وطن سے محبت جیسے اوصاف کو عام کیا. لیکن من حیث القوم جب ہم قیامِ پاکستان کا اصل مُحرَّک فراموش کرتے گئے تو جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں خرابیاں آتی گئیں وہیں ٹی وی ڈراما بھی مقصدیت سے دور ہوتا گیا۔ قوم کا اجتماعی ضَمیر جب خوابیدہ ہوجائے تو وہ بے سوچے سمجھے دوسروں کی نقالی کرنے لگ جاتی ہے۔ آغاز میں پی ٹی وی نے تعلیم و تربیت اور مقصدیت کو ایک حد تک پیشِ نظر رکھا مگر پھر اغیار کی دیکھا دیکھی " تفریح" کے خبط کو سر پہ سوار کر لیا ۔ نقل انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ ادیب ، ڈرامہ نگار اور پروڈیوسرز کی عقل پہ بھی جب پردے پڑ گئے تو وہ احساسِ کَمتری کا شکار ہوگئے۔شاعرِ مشرق نے کہا تھا ،، میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات شاعری،مصوری یا موسیقی یا معماری ان میں سے ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے اسی بنا پر میں آرٹ کو ایجاد و اِختراع سمجھتا ہوں نہ کہ محض آلۂِ تفریح۔۔(از :اقبال کی ایک تقریر کابل میں)
فکرِ اقبال سے استفادہ کرنے کی بجائے قوم کے زرخیز دماغوں نے آرٹ کا درآمد شدہ مفہوم اپنا لیا۔ بقول جسٹس ایم آر کیانی ۔۔۔"اگر گانے اور ناچنے کو محفلِ رقص و سرود کہا جائے اور اس کا افتتاح کسی معتبر آدمی سے کرایا جائے اور وہ بازار کے بالا خانے کی بجائے کسی بنگلے میں ہو تو اسے آرٹ کہتے ہیں اور اس کا شمار فنونِ لطیفہ میں کیا جاتا ہے۔" ۔۔۔( افکارِ پریشاں از جسٹس محمد رستم کیانی)
آرٹ کے اسی مفہوم کو احساس کمتری کے ماروں نے ڈراموں پہ بھی منطبق کرلیا۔ رذائلِ اخلاق کو نام دے دیا سمجھداری کا۔، روشن خیالی کا اور افیئر کا۔ 90ء کی دہائی میں بھارتی ڈرامے کی نقالی کے رجحان نے زور پکڑا۔ اس سلسلے کی پہلی ضرب تب پڑی جب کیبل اور ڈش کا جال ملک بھر میں پھیلا دیا گیا۔
کم فہموں نے لے رکھا ہے ابلاغ کا ٹھیکہ
بیساکھیوں والے بھی ہوئے دوڑ میں شامل
وہی کئی بار کی دہرائی ہوئی گھسی پٹی کہانیاں ہر ڈرامے کی بنیاد بننے لگیں۔۔۔اور اس میں مصالحہ ڈالا گیا عورت ذات کے رونے دھونے اور گھٹیا حرکات کے ذریعے ۔۔۔ یوں وارث، ہوائیں، شمع، اور عروسہ جیسے ڈرامے دیکھنے والوں کا ذوق آہستہ آہستہ ایسا پست ہوا کہ آج وہ بسمل (اے آر وائی), اب دیکھ خدا کیا کرتا ہے( جیو ٹی وی)، ہم سفر(ہم ٹی وی ) ، جھوک سرکار(پی ٹی وی)، سن میرے دل(جیو ٹی وی ) وغیرہ وغیرہ جیسے ڈرامے دیکھتے ہیں اور سیکھتے ہیں کہ
^^ملازمت پیشہ عورت باس کے ساتھ کس طرح وقتی عشق و معاشقے کی پینگیں چڑھاتی ہے۔۔۔
^^دیور بھابی کا عشق۔۔
^^ساس تو ہے ہی جنم جنم کا سازشی کردار۔۔
^^یونی ورسٹی میں کس طرح لڑکوں کو پھانسا جاتا ہے اور پھر کس طرح عمر کے اس نازک ترین حصے میں والدین کے برسوں کے تجربات اور سمجھ بوجھ کو چیلنج کیا جاتا ہے۔۔
^^ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنے کے لئے طرح طرح کی چالبازیاں اختیار کی جاسکتی ہیں، حتیٰ کہ کالے علم سے بھی ،مستفیض، ہونا سکھایا جاتا ہے۔۔
^^۔گھریلو لڑائی جھگڑے، ناچاقیاں،دوریاں ۔
^^گھر میں بہن بھائی، بزرگ وغیرہ تو آپ کے ایسے خیر خواہ نہیں ہیں، ہاں آفس کا باس، یونی ورسٹی میں صنف مخالف فرینڈز ،کسی ریسٹورنٹ میں اچھا کھانا کھلانے والا بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ خیر خواہ ہے، انسانیت تو بس اسی میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔
^^جب کوئی پریشانی آن پڑے تو خدائے واحد کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کرنا اور پھر وہاں سے "سکون اور کامیابی" کی دولت کا حاصل ہونا ۔۔
^^طلاق جیسے حساس موضوع کو ٹی وی ڈراموں نے تماشا بنا رکھا ہے۔۔
^^ نماز روزہ جوانوں کا نہیں بوڑھوں کا "شغل" ہے۔ بوڑھی اماں جان بیٹی اور اس کی کزنز سے کہتی ہیں کہ " تم لوگ مل کے کھانا بنا لو، میں جلدی سے نماز پڑھ لوں۔" ( ایک ڈرامے کا منظر)۔۔
^^خود کشی کا ۔۔۔۔رجحان ۔
^^شادی کی تقریب میں کہیں ہندووں اور کہیں ملحدوں کی نقالی
^^مادہ پرستی ، مال و دولت ، پر تَعَیُّش زندگی، قیمتی فرنیچر ، گاڑیاں، اعلیٰ ڈیکوریشن پیسز ، حاضر باش ملازم ۔۔ زندگی کا حاصل یہی کچھ ہے۔۔
^^ڈیکوریشن پیس کے طور پہ مورتیوں کا گھروں میں رکھا جانا بھی اب معیوب نہیں۔
پچاس ساٹھ سال سے بالعموم اور قریب بیس پچیس سال سے بالخصوص ہمارے ٹی وی ڈرامے معاشرے پہ جو اثرات مرتب کرچکے ہیں انھیں دیکھ کے ہر حساس اور دانا و بینا شخص پریشان ہے۔ محبت، رواداری، امداد باہمی ، مسجد و رمضان المبارک کااحترام، بزرگوں کا ادب ،سادگی، قناعت ، ایثار و وفا ایسی ہماری روایات دم توڑ رہی ہیں۔ مادہ پرستی یوں پنجے گاڑ رہی ہے کہ خود غرضی، تلخ رویے، بے اِعتنائی، بدتہذیبی، حسد ،جھگڑے ، عداوت، خونی رشتوں تک کا سفاکانہ قتل جیسی لعنتیں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ ڈیبل کاف مین نے تو سیٹلائٹ کو تہذیبی قتل کے ستاروں سے تشبیہ دی تھی ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ شوبز کے ،ستارے، تہذیبی قتل کا فریضہ بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔
حل کیا ہے۔۔۔۔؟؟
حساس ، ذمے دار محبًِ وطن افراد آگے آئیں اور ارباب اختیار پہ دباؤ بڑھائیں اور ان کے سامنے درج ذیل تجاویز رکھی جائیں
ا۔۔۔میڈیا سے وابستہ افراد کی نظریاتی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔۔
ب۔۔۔حکومت خلوص نیت سے میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق وضع کرے ۔
ج۔۔۔ ریٹنگ کو اصل مقصد نہیں بلکہ قوم کی ذہن سازی، نوجوانوں کی اخلاقی و نظریاتی تربیت کو نصب العین قرار دیا جائے۔
د۔۔۔۔اچھے ادیبوں اور اچھے پروڈیوسرز کی بھر پورحوصلہ افزائی کی جائے
ذ۔۔۔عورت کے آنسو ،عورت کی چالبازیاں ، عورت کا گلیمر ہی سب کچھ نہیں۔ زندگی بذات خود بہت بڑا موضوع ہے۔امید،روشنی، اخلاص، وفا، ایثار، خدمت ، انسانیت ، میاں بیوی کی محبت ، اخلاقی ترقی و خوشحالی ، امت کے جسدِ واحد ہونے کا تصور، غزہ کی تعمیر نو، امت کے حقیقی دشمن، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ، تاریخ پاکستان، پاکستان کے ہیروز، پاکستان کے حساس اداروں کا احترام ، سائینس، جدید ٹیکنالوجی، اے آئ ، گھریلو دستکارہوں کی حوصلہ افزائی، نوجوانوں کی سوچ کی تعمیر ۔
بے شمار موضوعات ہیں کہ جن پہ کوشش کر کے اچھے ڈرامے پروڈیوس کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر قوم اور حکومت مل کر ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کرنا چاہیں تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
تبصرہ لکھیے