پروفیسر خورشید احمد (23 مارچ 1932ء – 13 اپریل 2025ء) کی وفات سے عالم اسلام ایک درخشاں ستارہ کھو بیٹھا، جس کی روشنی نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو منور کیا۔ وہ ایک عظیم مفکر، رہنما، ماہر معاشیات، سیاستدان، مبلغ اسلام، اور ایسی ہستی تھے جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کی خدمت، معاشی اصلاحات، سماجی بہبود، اور امت مسلمہ کی فلاح کے لیے وقف کر دی۔ ان کی وفات 13 اپریل 2025ء کو برطانیہ کے شہر لیسٹر میں 93 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد ہوئی، جس پر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنماؤں، سیاسی و سماجی شخصیات، اور چاہنے والوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، کیونکہ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک، عظیم فکر، اور ابدی مشن تھے۔
پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد معلم تھے جنہوں نے ان کے دل میں علم کی شمع روشن کی۔ انہوں نے اینگلو عربک کالج دہلی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، اور 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ وہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے معاشیات، بزنس، اور قانون کی تعلیم حاصل کی، اور معاشیات و اسلامیات میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی نے ان کی علمی صلاحیتوں کے اعتراف میں ایجوکیشن میں اعزازی ڈگری دی۔ 1949ء میں انہوں نے 17 سال کی عمر میں اپنا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع کیا، جس سے انہوں نے اپنا مقصد واضح کیا کہ وہ اپنی تعلیم، فکر، اور قلم کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کریں گے۔
ان کا نظریاتی سفر 1949ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستگی سے شروع ہوا۔ 1953ء میں وہ اس کے ناظم اعلیٰ بنے، اور 1956ء میں جماعت اسلامی پاکستان میں شامل ہوئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ان کی قربت نے ان کی زندگی کو نئی جہت دی۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر کی حیثیت سے انہوں نے تنظیم کی فکری و نظریاتی بنیادیں مضبوط کیں، اور "اقامت دین" کے نصب العین کے لیے علمی، سیاسی، اور سماجی محاذوں پر کام کیا۔ 1978ء میں وہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی بنے، جہاں انہوں نے معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ 2002ء سے 2012ء تک وہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے، اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے ان کی خدمات کو خراج تحسین دیتے ہوئے کہا کہ ان کی سینیٹ میں کارکردگی ہر سیاستدان کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ نظریاتی رہنما تھے جو اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے تھے۔
پروفیسر خورشید احمد کو اسلامی معاشیات کا باپ کہنا بجا ہے۔ انہوں نے اسلامی معاشیات کو علمی شعبہ بنایا، سود سے پاک نظام کے نظریاتی و عملی پہلوؤں کو اجاگر کیا، اور زکوٰۃ، عشر، اور اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے اسلامک فاونڈیشن برطانیہ کی بنیاد رکھی، جو اسلامی علوم کے فروغ کا اہم ادارہ ہے۔ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے، اور جامعہ کراچی، یونیورسٹی آف لیسٹر، شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ سمیت عالمی اداروں میں تدریس کی۔ ان کی تصانیف جیسے اسلامی نظریہ حیات، تذکرہ زندان، پاکستان، بنگلادیش اور جنوبی ایشیا کی سیاست، اسلامک معاشیات، اور اسلام اور جدید دنیا کے چیلنجز ان کی گہری بصیرت کی عکاسی کرتی ہیں۔ انہوں نے مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا، اور ترجمان القرآن کے مدیر اعلیٰ رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990ء کا کنگ فیصل ایوارڈ، اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ، امریکن فنانس ہاؤس پرائز، اور 2011ء میں نشان امتیاز ملا۔
وہ انسان دوست رہنما تھے جنہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی بنیاد رکھی، جدید تعلیمی نظام کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، اور عالم اسلام میں اسلامی معاشی نظام کے فروغ کے لیے کام کیا۔ 1986ء سے 1989ء تک وہ سوڈان کے اسلامی قوانین اور اسلامی ترقیاتی بینک جدہ کی جائزہ کمیٹیوں کے رکن رہے۔ انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، مغرب میں اسلام کی غلط فہمیاں دور کیں، اور مغرب و مشرق کے درمیان پل بنایا۔ ان کی شخصیت شرافت، تحمل، اور معتدل طبیعت کی حامل تھی۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کے مطابق، وہ اختلاف رائے کو احترام سے سنتے تھے۔ ان کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے دل میں امت کا درد تھا، اور ان کی گفتگو میں سوز و جذبہ ہوتا تھا۔
ان کی وفات پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ یہ امت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ سراج الحق نے ان کی زندگی کو عظیم مشن قرار دیا، جبکہ سوشل میڈیا پر انہیں "بصیرت کا قافلہ" کہا گیا۔ ان کی زندگی سے ہمیں علم، عمل، اخلاص، اور اصولوں پر استقامت کا سبق ملتا ہے۔ ان کی وفات سے خلا پیدا ہوا، لیکن ان کی کتابیں، خیالات، اور خدمات آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ رہیں گی۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، حسنات قبول فرمائے، اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین! ان کی جدائی کا غم بھاری ہے، لیکن ان کی زندگی کی روشنی ہمارے دلوں کو منور کرتی رہے گی۔
تبصرہ لکھیے