ہوم << سپریم کورٹ میں صرف قانون نہیں، قوم کھڑی تھی - خوشبو گیتا اختر

سپریم کورٹ میں صرف قانون نہیں، قوم کھڑی تھی - خوشبو گیتا اختر

"آج سپریم کورٹ میں صرف قانون نہیں، قوم کھڑی تھی — میں خود اندر تھی"

پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔

یہ میں کسی خبر کی طرح نہیں کہہ رہی، جیسے کوئی رپورٹر ہجوم کی اطلاع دے رہا ہو —
میں خود کورٹ نمبر 1 کے اندر تھی۔
اور یہ گواہی میں اپنے وجود سے دے رہی ہوں۔

دو سو سے زائد وکیل اور درخواست گزار اندر تھے —
اور جتنے اندر تھے، اتنے ہی باہر انتظار میں کھڑے تھے۔
کچھ بیٹھے تھے، کچھ دیوار سے ٹیک لگائے،
کوئی تماشائی نہ تھا —
ہر شخص جانتا تھا کہ آج کا دن عام دنوں جیسا نہیں ہے۔

یہ خود وکیلوں نے کہا۔

2 بج کر 8 منٹ پر سماعت شروع ہوئی۔

چیف جسٹس سنجیو کھنّا، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس کے وی وشواناتھن بینچ پر موجود تھے۔

پہلا سوال چیف جسٹس نے کیا:

"کیا بہتر ہوگا کہ اس مقدمے کو ہائی کورٹس کو بھیجا جائے؟
ہر ریاست کی صورتِ حال مختلف ہے، تو کیا الگ الگ سماعت ہو؟"

سوال بظاہر منطقی تھا،
لیکن اس کی بنیاد زہر آلود تھی۔

اگر یہ مقدمہ ہائی کورٹس کو بھیجا جاتا تو یہ لڑائی تقسیم ہو جاتی۔
وہ ایک آواز — جو آج ایک ساتھ گونج رہی تھی —
وہ 73 درخواستیں جو مل کر ایک طاقت بنی تھیں —
سب ٹکڑوں میں بٹ جاتیں۔

پھر کپِل سِبّل اٹھے —
خاموشی ٹوٹ گئی۔

"مائی لارڈ! یہ صرف وقف کی زمین کا مسئلہ نہیں ہے —
یہ اسلام کی روح اور شناخت کا مسئلہ ہے —
یہ ہماری مساجد، قبرستانوں، مدارس کی حفاظت کا معاملہ ہے۔
اور سب سے بڑھ کر —
یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 کی حفاظت کا مقدمہ ہے۔

اسے ہائی کورٹ میں مت بانٹئے —
یہ انصاف کا معاملہ ہے —
یہیں سنیے، یہیں فیصلہ کیجیے۔"

پورے کورٹ میں سکوت طاری تھا —
لیکن اسی خاموشی میں ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی۔

پھر بحث پہنچی سب سے متنازع شق پر:
دفعہ 3(r): وقف بایوزر

جس زمین پر صدیوں سے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، دعائیں مانگ رہے ہیں، تعزیت پڑھ رہے ہیں، قبریں بنا رہے ہیں —
اگر وہ سرکاری ریکارڈ میں درج نہیں —
تو وہ وقف نہیں مانی جائے گی؟

"کیا تاریخ صرف رجسٹری کی محتاج ہوگی؟"
"کیا دعاؤں کا کوئی دستاویز ہوتا ہے، مائی لارڈ؟"
"کیا مزار پر چڑھائی گئی چادر کا کوئی رجسٹریشن ہوتا ہے؟"

سِبّل کی آواز بھاری تھی —
مگر تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

پھر بات آئی دفعہ 107 پر۔

حکومت کہتی ہے:
اگر کوئی 30 سال سے کسی وقف زمین پر قابض ہے —
تو اب اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

"تو کیا اب قبضہ ہی انصاف ہے؟
کیا جو مسجد کل تک آپ کی تھی —
اگر آج کوئی چھین لے، اور آپ خاموش رہیں —
تو وہ مسجد آپ کی نہیں رہی؟
کیا انصاف کی بھی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے، مائی لارڈ؟"

بینچ نے کہا:

"ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ دفعات پر آئینی تشویش ہے —
لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہر معاملے کو ‘ورثہ’ نہ مان لیا جائے۔"

سِبّل نے کہا:

"قبرستان، مسجد، مدرسہ — یہ ورثہ نہیں، ہماری ذمہ داری ہیں۔
یہ صرف عمارتیں نہیں —
یہ ہماری عبادت ہیں۔
اور ان پر ہمارا حق ہے —
کوئی کلکٹر، کوئی رجسٹرار ہم سے یہ نہیں چھین سکتا۔"

میں آج اندر تھی۔

میں نے صرف دلائل نہیں سنے —
میں نے انصاف کی سانسیں سنی ہیں۔

میں نے ان آنکھوں کو دیکھا —
جو بینچ کی طرف نہیں، خدا کی طرف دیکھ رہی تھیں —
کہ آج فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے۔

میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا جو عدالت کی دیوار کو چھو رہے تھے —
جیسے کہہ رہے ہوں:
"ہماری بات سنیے — بس انصاف کیجیے۔"

میں آج گواہ بن کر کھڑی تھی۔

میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈرنے نہیں آیا تھا —
وہ لڑنے آیا تھا —
دستاویزات سے، دلائل سے، آئین سے۔

اور میں یہ پوسٹ اس لیے لکھ رہی ہوں —
کیونکہ کل جب کوئی یہ کہے گا کہ
"یہ تو صرف ایک کیس تھا" —
تو میرا یہ لکھا ہوا کہے گا:

"نہیں۔ یہ ایک قوم کی موجودگی تھی — جو عدالتوں سے نہیں ڈرتی،
بلکہ وہیں کھڑے ہو کر اپنا حق لیتی ہے۔"