ہوم << ذہین مر د اور فیمنسٹ خو اتین، کیا کو ئی مقابلہ ہے؟ - بلال شوکت آزاد

ذہین مر د اور فیمنسٹ خو اتین، کیا کو ئی مقابلہ ہے؟ - بلال شوکت آزاد

دنیا میں کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جو خنجر کی طرح چبھتی ہیں، کچھ جملے ایسے ہوتے ہیں جو پانی کی طرح اترتے ہیں مگر پیاس نہیں بجھاتے بلکہ اندر ہی اندر جلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تحریر ان ہی جملوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کالم کسی لائبریری کی سنجیدہ خاموشی میں لکھا گیا فلسفہ نہیں بلکہ گرم چائے کے کپ، جلے کٹےنظریات کے دھوئیں اور معاشرتی منافقت کے بخارات سے ابھرتی وہ چیخ ہے جسے سننے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔

کیونکہ یہ تحریر اُن "عقلمند عورتوں" کے کانوں کے لیے نہیں جو ہر مرد کو "ٹاکسک میل" سمجھ کر اپنے ہر زہریلے نظریے کو گلاب کی پنکھڑی سمجھ کر پیش کرتی ہیں، بلکہ یہ اُن الفا مردوں کے لیے ہے جنہیں دیکھ کر فیمنسٹ نظریے کی چڑیا پر مارنا ہی بھول جاتی ہے۔ وہ ذہین مرد جن کے سامنے "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے بھی شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیتے ہیں۔ وہ مرد جو نہ صرف اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں بلکہ اُسے فضا میں اُڑانے والے جھوٹے نظریات کے پنکھ بھی نظر آجاتے ہیں۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ فیمنزم کو آزادی کا لیبل دے کر عورت کے سر پر تاج بنایا گیا ہے مگر درحقیقت وہ تاج نہیں، کانٹوں کا جال ہے جسے بیوقوفی سے زیب تن کیا گیا ہے۔ جو عورت اپنی ہر ناکامی کو پدرشاہی کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے، وہ بھول جاتی ہے کہ جو معاشرہ اُسے تعلیم دیتا ہے، اُس کے حقوق کے لیے قانون بناتا ہے، اور عزت کے نام پر سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے، وہ بھی مرد ہی ہوتا ہے۔

فیمنزم کے اس واویلے میں ہر وہ مرد جو ذرا سا بھی ذہانت کی علامت رکھتا ہے، انہیں خار کی طرح کھٹکتا ہے۔ وہ مرد جس کے سامنے عورت دلیل سے بات کرے تو وہ دلیل کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی اصل نیت نکال کر رکھ دیتا ہے۔ وہ مرد جس کے سامنے "جنڈر ایکوئلٹی" کے نعروں کی حیثیت کسی ناکام لطیفے سے زیادہ نہیں۔

ذرا سوچیے، وہ فیمنسٹ خاتون جو ہر روز سوشل میڈیا پر مردوں کی برائی کے انڈے دیتی ہے، جب کسی ذہین مرد کے سامنے بیٹھتی ہے تو کیوں اُس کی زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں؟ کیوں اُس کے نظریات کے "چوزے" ذہنی انکیوبیٹر میں دم توڑ دیتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ یہ وہ مرد ہے جسے جھوٹے نعرے، جعلی سسکیاں، اور آنسوؤں کی دکان داری سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

یہ مرد "برو ٹاکسک" نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہ شیشے کا ٹکڑا ہوتا ہے جس میں جھوٹی آزادی کے نظریے اپنا چہرہ دیکھ کر شرم سے ڈوب جاتے ہیں۔ یہ وہی مرد ہوتا ہے جو عورت کو نہ دیوی بناتا ہے، نہ داسی، بلکہ انسان مانتا ہے، اور اسی لیے جب وہ عورت سے سوال کرتا ہے تو عورت اسے ظالم، مغرور، پدرشاہی کا نمونہ، بلکہ کبھی کبھی تو زہریلا سانپ بھی قرار دے دیتی ہے, جبکہ خود اِچھا دھاری ناگن ہو تو بھی چلے گا۔۔۔ ایسے کیسے بہن, ایسے کیسے؟

یہ بلاگ کسی مرد کی بڑائی میں نہیں، بلکہ اُس سچ کی پذیرائی میں لکھا جا رہا ہے جسے ہر عورت محسوس تو کرتی ہے مگر تسلیم نہیں کرتی۔ اُس ذہین مرد کی سچائی جو جانتا ہے کہ "فیمنزم" دراصل ایک مارکیٹ ہے — جذبات کی، احساسات کی، اور سب سے بڑھ کر "وِکٹم کارڈز" کی۔

اس دکان پر عقل نہیں بکتی، احساس نہیں بکتا، یہاں صرف وہ بیانیہ بکتا ہے جو عورت کو ہر ظلم کا شکار اور مرد کو ہر ظلم کا ذمہ دار بنا دے۔

اور پھر آتے ہیں وہ الفا مرد، جنہیں دیکھ کر نہ صرف فیمنسٹ نظریے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، بلکہ وہ عورت بھی خاموش ہو جاتی ہے جو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر انقلابی نعرے لگا کر خود کو انقلاب کی بیٹی سمجھتی تھی۔ یہ وہ مرد ہیں جن کے پاس دلیل ہے، تجربہ ہے، کردار ہے، اور سب سے بڑھ کر، وہ خوفِ خدا ہے جو اُنہیں نہ صرف عورت بلکہ خود اپنے نفس کے سامنے بھی جوابدہ رکھتا ہے۔

یہ مرد جب عورت سے سوال کرتا ہے تو صرف اُس کے عمل پر نہیں، اُس کے ارادے پر بھی شک کرتا ہے۔ جب وہ پوچھتا ہے کہ تمہیں برابری چاہیے یا برتری؟ جب وہ کہتا ہے کہ اگر تم خود کو باشعور مانتی ہو تو رشتہ، تعلق اور قربانی کی تعریف میں صرف مرد کا کردار کیوں دیکھتی ہو؟ جب وہ تمہیں آئینہ دکھاتا ہے تو وہ تمہارے چہرے کا نہیں، تمہارے نظریے کا میک اپ اتار دیتا ہے۔

اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں فیمنزم کا فریب دم توڑنے لگتا ہے۔ وہ عورت جو ساری زندگی "خود کفالت" اور "خودمختاری" کا ڈھول بجاتی ہے، وہی ایک الفا مرد کے سامنے بیٹھ کر کہتی ہے، "تم جیسے مرد کم ہوتے ہیں۔" کیوں؟ کیونکہ اُسے پتا ہے کہ یہ مرد نہ صرف اسے سمجھ سکتا ہے بلکہ اُس کے چھپے ہوئے جھوٹ کو بھی پڑھ سکتا ہے۔

الفا مرد وہ امتحان ہوتا ہے جس میں فیمنسٹ سوچ ہمیشہ فیل ہو جاتی ہے۔ وہ سوال ہوتا ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ وہ دلیل ہے جس کے خلاف کوئی احتجاج نہیں چلتا۔ اور وہ حقیقت ہے جسے جتنا جھٹلایا جائے، اتنا ہی زیادہ ظاہر ہو کر سامنے آتا ہے۔

لہٰذا، فیمنزم کے اس مصنوعی عروج میں، ایک سچا، ذہین، اور خدا ترس مرد اُس سچ کی مانند ہوتا ہے جو وقتی طور پر دب سکتا ہے، مگر مٹ نہیں سکتا۔ اُس کی موجودگی ہر نظریاتی شور میں ایک خاموش طمانیت بھر دیتی ہے، اور ہر جھوٹے نعرے میں سچ کی بازگشت گونجنے لگتی ہے۔

وہ الفا مرد کسی نظریے کا دشمن نہیں ہوتا، وہ صرف جھوٹ کا منکر ہوتا ہے۔ وہ عورت کو اُس کی عزت، اُس کی قابلیت، اُس کی ماں، بیوی، بہن یا بیٹی ہونے کے دائرے سے نکال کر ایک مکمل انسان تسلیم کرتا ہے۔ مگر جب یہی عورت اس انسانیت کی سطح سے نیچے جا کر صرف اپنے صنفی فائدے کے لیے جذباتی بلیک میلنگ کا سہارا لیتی ہے، تو وہ مرد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے — "تم حق کی نہیں، ہٹ دھرمی کی داعی ہو۔"

اس لیے فیمنزم کا حقیقی امتحان بھی اُسی دن ہوتا ہے جب ایک الفا مرد سوال کرتا ہے کہ عورت کو برابری چاہیے یا وہ ہر موقع پر رعایت کی طالب ہے؟ کیا وہ خودمختاری کا مطلب جانتی ہے یا صرف آزادی کی خواہش رکھتی ہے بغیر اس کے بوجھ کو اٹھائے؟ کیا وہ واقعی جتنی سمجھدار بننے کا دعویٰ کرتی ہے، اتنی سمجھدار بھی ہے؟

ایسے سوالات کے سامنے اکثر سلوگن بے جان ہو جاتے ہیں، آنکھوں کی نمی مصنوعی لگنے لگتی ہے اور جملے بے معانی ہو جاتے ہیں۔ اور یوں، الفا مرد نہ صرف فیمنسٹ بیانیے کو مات دیتا ہے بلکہ اسے اس کی حدود بھی یاد دلا دیتا ہے۔

کیونکہ بالآخر،

"الفا مرد" ورگا ذہین ہے ای کوئی نہیں
فیمنسٹ چِڑیاں تے شے ای کوئی نہیں

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment