ہوم << افسر شاہی اور سوشل میڈیا - حافظ محمد قاسم مغیرہ

افسر شاہی اور سوشل میڈیا - حافظ محمد قاسم مغیرہ

سوشل میڈیا سے انسان کو خودنمائی کی ایسی لت لگی ہے کہ افسر شاہی بھی پیچھے نہیں رہی۔ میڈم گاڑی سے اتر رہی ہیں اور ایک کیمرہ مین سین ریکارڈ کرنے کے لیے موجود ہے۔ سین ریکارڈ ہوتا ہے اور چند گھنٹوں میں وائرل ہوجاتا یے۔ پھر کوئی یوٹیوبر مائیک لے کر میڈم کا انٹرویو کرنے پہنچ جاتا ہے۔ ویوز لاکھوں تک جا پہنچتے ہیں۔

ایک اور سین میں میڈم اپنے ماتحتوں کے ساتھ فٹ پاتھ پہ بیٹھی کھانا کھارہی ہیں۔ ایک پولیس آفیسر اپنی بیٹی کو دفتر میں ساتھ لے آتی ہیں، تصویر وائرل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے نمائندے انٹرویو کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ میڈم اپنی "جدوجہد" کی طویل اور صبر آزما داستان سناتی ہیں۔ سننے والے تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں۔

مرعوبیت سے سرشار یہ لوگ شاید بھول جاتے ہیں اپنے بچوں کو تو سبھی عورتیں پالتی ہیں کیوں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ کسی عورت کا ایئر کنڈیشنڈ کمرے سے نکل کر، ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں چلے جانا اور جاتے ہوئے اپنی بیٹی کو ساتھ لے جانا کون سی جدوجہد ہے؟ جدوجہد تو پاکستان کی غریب عورتیں کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی چکا چوند سے دور دیہاتی عورتیں نامساعد حالات اور وسائل کی کم یابی میں بھی اپنے گھر کا نظام چلاتی ہیں۔ لیکن کوئی یوٹیوبر ان کے ہاں پہنچتا ہے نہ ان کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ نہ ان عورتوں کا انٹرنیشنل ڈے کسی کو یاد رہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی خواتین افسر یہ تاثر دیتی ہیں کہ انہوں نے شادی کرکے، بچے جن کر، بچے پال کر اور ( کبھی کبھار ) اپنے گھر کے کام کرکے قوم پر احسان کیا ہے۔ ایک خاتون آفیسر کی ویڈیو وائرل ہوئی کہ صبح سویرے اپنے سرتاج کے لیے کھانا بنارہی ہے۔ اس کے کچن میں کسی کیمرہ مین کا چلے جانا کسی خاص اہتمام اور منصوبہ بندی کے بغیر تو ممکن نہیں ہے۔

بلا تخصیص مرد و زن افسر شاہی کے دو گروپس پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروسز اور پولیس سروس آف پاکستان کے اکثر افسروں کا یہی حال ہے۔ ان دو شعبوں کے لوگوں کا براہ راست عوام سے تعلق ہوتا ہے اس لیے انہیں وائرل ہونے میں آسانی رہتی ہے۔

ایک پولیس آفیسر سوشل میڈیا پر مصنوعی عاجزی کے اظہار کے لیے بہت مشہور ہیں۔ ان کی عاجزی کے مناظر بہت دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک صاحب ان سے ملنا چاہ رہے ہیں اور یہ انہیں غیر محسوس طریقے سے پیچھے دھکیل رہے ہیں اور اپنے دوستوں کو بتا رہے ہیں کہ " یہ میرا ناظرہ کا استاد ہے۔" پھر اس باریش شخص کی طرف منہ کرکے کہتے ہیں " کسی دن ملیں گے تم سے۔"

ایک کانسٹیبل کے بیٹے نے میٹرک کیا تو وہ اسے اپنے ساتھ ڈی پی او کے آفس لے گئے۔ وہ منظر بہت تکلیف دہ ہے۔ ڈی پی او بہ ظاہر عاجزی کی کوشش کررہے ہیں لیکن کانسٹیبل کے بیٹے کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔ اس بچے کے ساتھ ایک اچھوت کا سا معاملہ کیا جارہا ہے۔

افسر شاہی نامی اس مخلوق کو پوڈ کاسٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ گفت گو بے زاری کی حد تک سطحی، ذہنی بلوغت کے فقدان کی عکاس اور خود احتسابی کے بجائے الزام تراشی کی غماز۔ ایک پوڈ کاسٹ میں ایک صاحب سے افسر شاہی کو حاصل مراعات کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں اسے مبالغہ آرائی کہہ کر بات ہی ختم کردی۔

افسر شاہی سوشل میڈیا پر اپنے فلاحی کاموں کی تشہیر کرتی نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک اسسٹنٹ کمشنر ہسپتال میں کھانا تقسیم کررہے ہیں، ایک پولیس آفیسر کسی بلڈ بنک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کاموں میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ کام انہیں اپنی نجی اور ذاتی حیثیت میں کرنے چاہئیں نا کہ اپنے الاؤ لشکر کے ساتھ اور وہ بھی ایک ایسی صورت حال میں جب کہ یہ دفتری و انتظامی امور میں حد درجہ نالائقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

افسر شاہی کو شہرت پسندی ، شعبدہ بازی اور خود نمائی ترک کرکے اپنے اصل کام یعنی دفتری و انتظامی امور کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ صورت حال یہ ہے کہ سرکاری ادارے خسارے میں جارہے ہیں۔ داخل دفتر کیے گئے بیشتر معاملات سرخ فیتے کی نظر ہوجاتے ہیں۔ شاذ ہی کوئی ادارہ رشوت کے بغیر کام کرتا ہو۔ پاسپورٹ آفس میں ایجنٹ مافیا کا راج ہے۔ جائز طریق سے کام کرانے کے خواہش مند لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ ایک درخواست گزار سے زیادہ ایجنٹس کے علم میں ہوتا ہے کہ پاسپورٹ بن کر آگیا ہے یا نہیں۔ پاسپورٹ کے علاوہ بھی کم و بیش ہر ادارے کی یہی صورت حال ہے۔

مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کا چلن عام ہے۔ ضلعی انتظامیہ صرف پرائس لسٹ جاری کرکے مطمئن ہوجاتی ہے۔ پرائس لسٹ پر درج قیمت پر تو کوئی جنس ایک چھوٹے دکان دار کو بھی نہیں ملتی ، وہ اس قیمت پر کوئی شے کس طرح فروخت کرسکتا ہے؟ بڑے بڑے مگر مچھ احتساب کے جال میں نہیں آتے۔ بجلی گرتی ہے تو چھابڑی فروشوں اور چھوٹے دکان داروں پر۔

ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسروں کو آئے روز ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کا ہسٹیریا ہوتا ہے اور یہ جگہ جگہ تربیتی کیمپ لگاکر عوام کی تربیت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بل کہ آسانی سے اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہل کار ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے، ہیلمٹ پہننا اپنی توہین سمجھتے ہیں، ٹریفک اشاروں اور سمت وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے۔ ٹریفک قوانین سے متعلق سب سے زیادہ تربیت کی ضرورت خود ٹریفک پولیس کو ہے۔ ٹریفک پولیس کے ذمہ داران کو سمجھنا چاہیے کہ ٹریفک پولیس کا کام مال اکٹھا کرنا نہیں بل کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہل کار یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انہیں اوپر سے اتنے چالان کرنے کا حکم آیا ہے۔

اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک خاتون ایس ایس پی کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا۔ فرمارہی تھیں کہ گھر میں کھانے کے دوران بھی اپنے شوہر، جو پولیس آفیسر ہیں، سے پولیس سے متعلقہ معاملات پر گفت گو شروع ہوتی ہے اور کھانا اسی طرح پڑا رہ جاتا ہے۔ اگر ہماری افسر شاہی کو واقعتاً اپنے معاملات میں اتنی دل چسپی ہے تو عوام کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آنا چاہیے لیکن یہ سب باتیں صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہیں اور عملاً ایسا نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر چوکس نظر آنے والی افسر شاہی اپنے دفتری امور بھی اتنی مستعدی سے سرانجام دے۔ سوشل میڈیا پر عجز و انکسار کا پیکر بننے والی افسر شاہی دراصل تکبر، رعونت اور فرعونیت کا مرقع ہے۔ افسر شاہی کو سوشل میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے اپنی اصل ذمہ داری کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ سماج سے جرم، ناانصافی ، استحصال،رشوت ستانی، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو۔ ایک بار زیر تربیت سرکاری افسروں کو ایدھی ہوم لے جایا گیا تو انہوں نے ایدھی صاحب سے درخواست کی کہ وہ کچھ دن کے لیے ایدھی ہومز میں کام کرکے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے ان سے کہا کہ اپنے دفاتر میں آنے والے دکھی لوگوں کی خدمت کریں۔ افسر شاہی کے کرنے کا اصل کام یہی ہے۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment