ہوم << سماج میں خودنمائی اور ریاکاری کا رجحان۔فخرالزمان سرحدی

سماج میں خودنمائی اور ریاکاری کا رجحان۔فخرالزمان سرحدی

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عبادات کا مدعا اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ اخلاص سے عبادات کی جائیں تو اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہیں اور مومن مسلمان کو اجر عظیم بھی ملتا ہے۔تاہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ذرا سی ریاکاری اور خودنمائی کا اشارہ ہو تو عبادات کا اجروثواب ضائع ہو جاتا ہے۔اس کے پیش نظر ریاکاری ایک مذموم طرز عمل ہے۔اس سے مومن مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔علماۓ کرام کے مطابق ریاکاری اور خودنمائی کے بغیر کیا ہوا عمل رب کریم کے حضور مقبول ہوتا ہے۔

اسلامی تہذیب اور ثقافت میں بھی ریاکاری اور خودنمائی کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ریاکاری کا جائزہ لیا جاۓ تو اس سے مؤمن مسلمان کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔اور نفع کم ملتا ہے۔سماج کی بنیادیں عدم استحکام کا شکار ہوتی ہیں۔نفرت اور حقارت کے جذبات بھی جنم لیتے ہیں جو سماجی ترقی کے لیے اچھا طرز عمل نہیں۔عبادات ہوں کہ معاملات اخلاص مدنظر رہے۔تاہم ذرا بھی ریاکاری اور خودنمائی کا غلبہ ہوا تو زندگی سے اطمینان اور سکون چھن جاتا ہے اور دل میں بے تابی بڑھ جاتی ہے۔اسلامی معاشرے کا معیار اچھے اعمال اور اخلاص سے عبادات کرنے سے بلند ہوتا ہے۔تمدنی شعور کی بیداری اور سماجی فکر کی بہتری تعلیم سے ممکن ہوتی ہے۔وہ معاشرہ اور سماج کتنا مظلوم ہوتا ہے جہاں انسان خواہشات کے سمندر میں زندہ رہتے ہوں اور خودنمائی کلچر ہو۔یہ کیفیت سماجی ترقی اور استحکام کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔جس معاشرے میں لوگ اخلاص سے عبادات کا اہتمام کرتے ہوں اور معاملات زندگی میں بھی کوٸی خودنماٸی نہ پاٸی جاتی ہو تو امن ٬سکون اور اطمینان کی فصل اگتی ہے۔زندگی اور عبادات کا تعلق بہت گہرا ہے۔ اس لیے زندگی کو سنوارنے کے لیے اخلاص سے عبادات کرنا ہی عافیت ہے۔

علم اور تعلیم کی دولت سے ریاکاری کے نقصانات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔عصر حاضر میں انسانیت کی بہتری اور نفع بخش زندگی کے لیے ریاکاری اور خود نمائی کے تاثر کو ختم کرنا ہے۔ کلمہ طیبہ ،نماز٬روزہ٬زکوٰة اور حج ذکرواذکار اور معاملات میں فقط اللہ کی رضا غالب رہے تو بہت خوشگوار اثرات سامنے آتے ہیں۔ضرورت فقط اس بات کی ہے اللہ کریم کی رضا کے حصول کے لیے ہر نیک کام کیا جاۓ تاکہ سماج میں ایک خوشگوار کیفیت پیدا ہوں۔اللہ کی قربت نصیب ہو۔خود داری اور اعتماد میں اضافہ ہونے سے سماج کی رونقیں بحال رہتی ہیں۔ ہماری رسموں اور رواج میں بھی خودنمائی زیادہ ہوتی ہے اس سے بھی سماج پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ان رسومات اور رواجوں میں اعتدال کی ضرورت زیادہ ہے۔وگرنہ سماج اور معاشرہ کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔محض خواہشات نفسانی کی تسکین کے لیے زندہ رہنا کوئی عظمت نہیں بلکہ خودنمائی سے تو ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔