یقیناً، دنیا میں نظریاتی جنگوں کا انداز بدل چکا ہے۔ اب جنگیں صرف بارود اور ہتھیاروں سے نہیں بلکہ الفاظ، خیالات، ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے ذرائع سے لڑی جاتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اکثر زیرِ بحث آتا ہے کہ کیا دشمن کے بنائے ہوئے ہتھیار کو دشمن کے خلاف استعمال کرنا درست ہے؟ اور اگر ہاں، تو اس کے اثرات مثبت زیادہ ہیں یا منفی؟ اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ بات درست ہے کہ دشمن کے وسائل کو اس کے خلاف استعمال کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات ضروری بھی ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایاگیا:
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ (الأنفال: 60)
یعنی دشمن کے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت تیار رکھو۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کے خلاف ہر ممکن تدبیر اور حکمتِ عملی اپنانا دینِ اسلام کا اصول ہے، بشرطیکہ وہ اخلاقی دائرے میں ہو۔
سوشل میڈیا آج کی دنیا کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے، جہاں ایک پیغام لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے۔ جب ہم فلسطین، کشمیر یا کسی بھی مظلوم قوم کے حق میں بائیکاٹ یا احتجاج کی آواز اٹھاتے ہیں، تو وہ زیادہ تر انہی پلیٹ فارمز پر کی جاتی ہے جو مغربی دنیا کی ملکیت ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو ٹریفک اور اشتہارات کے ذریعے مالی فائدہ پہنچتا ہے، اور بائیکاٹ کے شور سے ہم انہیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں۔
لیکن اگر اس بات کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہم انہی پلیٹ فارمز کو مثبت استعمال کرتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، حقائق دنیا تک پہنچاتے ہیں، اور بیداری پیدا کرتے ہیں، تو یہ دشمن کے لیے ایک فکری شکست ہے۔ کیونکہ فکری میدان میں شکست، عسکری میدان کی شکست سے زیادہ دیرپا اور گہری ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو نظریاتی جنگوں میں ابلاغی ہتھیاروں کا کردار اہم رہا ہے۔
ویتنام جنگ، افریقہ کی آزادی کی تحریکیں اور حالیہ عرب بہار میں سوشل میڈیا نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس لیے اگر ہم حکمت سے کام لیں تو یہی ذرائع دشمن کے خلاف مؤثر ہتھیار بن سکتے ہیں۔ بائیکاٹ کے نتیجے میں کچھ مقامی کاروبار اور ملازمتیں ضرور متاثر ہوتی ہیں، اور یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ مگر جب ہم مجموعی قومی مفاد کی بات کرتے ہیں تو ہمیں فرد کے فائدے اور ملت کے مفاد میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
حالیہ برسوں میں فلسطین کے مظالم کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے بائیکاٹ کی مہمات نے کئی بڑی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا، اور انہیں اپنا مؤقف بدلنے پر مجبور کیا (Al Jazeera, 2024؛ BDS Movement Report, 2023)۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شعوری بائیکاٹ نہ صرف ممکن ہے بلکہ مؤثر بھی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہم خودکشی کر رہے ہیں، ایک جذباتی ردعمل ہے نہ کہ حقیقت۔
اگر ہم حکمت کے ساتھ، منصوبہ بندی سے، دشمن کے ہتھیار کو اس کے خلاف استعمال کریں، اور اپنے لوگوں کو بھی متبادل مواقع اور تربیت فراہم کریں، تو یہ خودکشی نہیں بلکہ شعور، مزاحمت اور غیرت کی علامت بن جاتا ہے۔
قرآن کی تعلیمات، تاریخ کے تجربات اور موجودہ حالات ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ ہمیں ہر سطح پر دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، چاہے وہ فکری ہو، معاشی ہو یا ابلاغی۔ اور اس مقابلے میں اگر وقتی نقصان برداشت بھی کرنا پڑے تو وہ اس فکری بیداری کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو امتِ مسلمہ کو ایک نئی سمت دے سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے