ہوم << کیسی عورت؟ کیسا مرد؟ - بلال شوکت آزاد

کیسی عورت؟ کیسا مرد؟ - بلال شوکت آزاد

یہ جو آج کل کا مرد ہے نا، وہ عورت سے عشق نہیں کرتا — وہ عورت سے "ڈرتا" ہے۔ جی ہاں! عشق تو شاید اب ایک نایاب جذباتی جنس ہے جسے انسٹا پر filter مار کے پوسٹ کیا جاتا ہے اور status میں لگایا جاتا ہے، لیکن ڈر؟ وہ ہر نارمل، شریف، درمیانے درجے کے تنخواہ دار، یا کاروبار کے اُتار چڑھاؤ سے لڑتے مرد کی نس نس میں رچ بس چکا ہے۔

یہ ڈر عورت کے آزادی کے نعرے کا نہیں — بلکہ اس کے اس خفیہ ارادے کا ہے کہ شادی کے بعد "نہ صرف" برابر کی پارٹنر بنے گی، بلکہ گھر کے ہر کونے میں اپنا manifesto چسپاں کر کے، شوہر کے ہر جملے پر fact-check لگا کر، ہر جذباتی لمحے میں اسے patriarchy کا کارندہ قرار دے کر، آخرکار اسے philosophical توبہ پر مجبور کر دے گی۔

عقل مند مرد، جو آج کل extinction کے قریب ہے، اپنے دوستوں کو بیٹھکوں میں مشورہ دیتا پایا جاتا ہے کہ:
"شادی نارمل لڑکی سے کرنا بھائی! ایسی نہ ہو جو ہر بات کو gender politics کا chapter بنا دے۔ ایسی ہو جو گھر بسائے، نہ کہ اس پر thesis لکھے۔"

یہ جملہ سن کر کچھ "بیدار مغز" خواتین کا خون کھول اٹھتا ہے۔ ان کے حلق میں لگی feminist whistle بجنے لگتی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ توہین ہے — جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ observation ہے۔ ایسی observation جو آج کے مرد نے نہ صرف اپنے تجربے بلکہ دوستوں، بھائیوں، کولیگز اور سوشل میڈیا کے "مظلوم شوہروں کے میمز" سے کشید کی ہے۔

یہ بات یاد رکھیں, زندگی کوئی بین الاقوامی سیمینار نہیں ہے کہ ہر روزintellectual debate ہو، اور رشتہ ازدواج کوئی TED Talk نہیں جس میں ہر دن نئی تھیوری پیش کی جائے۔ زندگی کی اصل جنگ تو رات کو جب بچوں کا بخار ہو، تب لڑنی ہوتی ہے۔ صبح جب مرد کی نوکری داؤ پر ہو اور عورت کی نیند پوری نہ ہو، تب partnership کا مطلب سمجھ آتا ہے۔ وہ partnership جو Instagram پر post نہیں ہوتی — بلکہ اندر ہی اندر کھائی جانے والی قربانیوں، چپ رہنے والی برداشتوں، اور بنا جتائے دی جانے والی چھوٹوں سے وجود میں آتی ہے۔

اب آئیے اُس خاتون کی طرف، جسے آج کل کا modern، aware, self-made, and highly opinionated کہا جاتا ہے — یعنی وہ جو ”بیدار مغز“ ہے۔ مسئلہ اس کی ذہانت نہیں، بلکہ وہ ”اوور ڈوزڈ ذہانت“ ہے جو اسے ہر وقت اس زعم میں مبتلا رکھتی ہے کہ ”میں special ہوں، extraordinary ہوں، اور مجھ جیسی عورت کے ساتھ عام سا مرد چل ہی نہیں سکتا!“

یہ عورت debate میں بھاری، مشاہدے میں تیز، اور باتوں میں چھری ہے۔ مگر یہ چھری اکثر marriage کی soft روٹی کا آٹا کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ وہ شوہر کے ہر جملے کو patriarchy کی شق 420 کے ماتحت analyze کرتی ہے، اور پھر اسے moral defeat دے کر رات کے کھانے پر lecture دیتی ہے۔ وہ ہر اختلاف کو ideological انقلاب کا آلہ بناتی ہے — اور آخرکار گھر کو ایک continuous political protest میں بدل دیتی ہے۔

مرد جو دن بھر باہر کی دنیا سے لڑ کے آتا ہے، وہ گھر میں آ کر "شریکِ حیات" چاہتا ہے، نہ کہ کسی NGO کی campaigner یا کسی research journal کی editor۔ اس کی فطرت میں سیاست، فلسفہ، نظریات اور احتجاجوں سے زیادہ، ایک ایسی companion کی خواہش ہوتی ہے جو اس کے ساتھ زندگی کے بےترتیب صفحات کو مل کر ترتیب دے — بغیر یہ سمجھے کہ وہ compromise کر رہی ہے، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ زندگی کو آسان بنا رہی ہے۔

اور اب سوال اٹھتا ہے کہ “کیا مرد خود کوئی فرشتہ ہے؟” بالکل نہیں۔ مرد بھی اکثر ایسا بےخبر، خود غرض اور جذباتی نابالغ ہوتا ہے جسے عورت کے احساسات کی الف ب تک سمجھ نہیں ہوتی۔ وہ بھی ego کا پٹاخہ ہے، تعریفوں کا بھوکا، اور ذمہ داریوں سے بھاگنے والا۔ لیکن — وہی مرد جب تھکا ہارا، خالی جیب، شکست خوردہ ہو کر گھر لوٹتا ہے، تو اگر اسے ایک “زندگی کو سمیٹنے والی عورت” مل جائے — تو وہ اپنی ساری مردانگی، جھوٹی انا، اور احساس برتری ایک طرف رکھ کر صرف شوہر بن جاتا ہے۔

اصل لڑائی "مساوات" کی نہیں — "مطابقت" کی ہے۔ عورت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مرد ہر وقت “ذہانتوں کا مقابلہ” نہیں چاہتا۔ اسے اس کی کمزوریوں سمیت قبول کرنے والی ساتھی چاہیے، نہ کہ ہر لمحہ اس کے intellectual GPS کو ٹریک کرنے والی فوجی افسر۔ وہ ذہنی امن چاہتا ہے، debate نہیں۔

عورت مارچ کے بینر اور اس پر لکھے بیہودے نعروں کا بوجھ اٹھانے سے کہیں زیادہ مشقت طلب کام ہے ایک مرد کی تھکی ہوئی روح کو سہارا دینا — وہ روح جو دفتر کے باس، معاشرے کے طنز، اور مہنگائی کے طوفان میں جھلس چکی ہے۔ ایسے میں اگر عورت اس مرد کے لیے جائے پناہ نہ بنے، تو پھر وہ مرد باہر ہی کسی refuge camp میں اپنا peace ڈھونڈنے نکلے گا — جہاں نہ سوال ہوں، نہ argument، نہ counter-narratives۔

یہ وقت ہے ایک نئی “عقلمندی” کی — جہاں عورت اور مرد دونوں سمجھیں کہ partnership کیا ہوتی ہے۔ مرد یہ سیکھے کہ “میں کماؤ ہوں” کافی نہیں — بلکہ "میں considerate بھی ہوں" ضروری ہے۔ عورت یہ سیکھے کہ “میں با شعور ہوں” کا مطلب یہ نہیں کہ “میں superior ہوں” — بلکہ “میں سمجھدار ہوں” کا مطلب یہ ہے کہ “میں space دیتی ہوں، برداشت کرتی ہوں، اور اپنی ذات کے noise کو خاموشی کے حسن میں بدل سکتی ہوں۔”

تحریکیں، منشور، نظریے، سب بعد کی باتیں ہیں — اصل جنگ تو تب جیتی جاتی ہے جب بچہ بیمار ہو اور دونوں میاں بیوی اس کے پاس جاگ رہے ہوں۔ جب تنخواہ کم ہو اور دونوں اپنی خواہشیں کاٹ کر گھر کے بلوں کی planing کریں۔ جب جھگڑا ہو اور ego کے باوجود کوئی ایک sorry کہے، صرف اس لیے کہ رشتہ بچانا ہے، بحث جیتنا نہیں۔

اس لیے، اے زمانے کے باشعور مرد! شادی سے پہلے یہ مت دیکھنا کہ لڑکی کتنی degrees رکھتی ہے، بلکہ یہ دیکھنا کہ کیا وہ رشتے کو نبھانے کے ہنر میں بھی مہارت رکھتی ہے؟ اور اے زمانے کی enlightened خواتین! اگر آپ چاہتی ہیں کہ مرد آپ کی عزت کرے، تو اسے برابری کی سطح پر قبول کریں — نہ کہ اس کی masculinity کو ایک failed system سمجھ کر ہر وقت reform کرنے پر تُل جائیں۔

زندگی کوئی court نہیں، جہاں ہر روز case چلے۔ زندگی ایک کشتی ہے — جسے بیچ طوفان سنبھالنے کے لیے دو مضبوط مگر ہم آہنگ ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ ایک مرد کا، ایک عورت کا۔ نہ کوئی قائد، نہ کوئی مجاہد — بس فقط انسان!

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment