ہوم << اپنے دیکھنے کا زاویہ اور عدسہ درست کرنا ضروری ہے - عاصمہ حسن

اپنے دیکھنے کا زاویہ اور عدسہ درست کرنا ضروری ہے - عاصمہ حسن

ہم بحیثیت انسان اپنی زندگی میں کئی ادوار سے گزرتے ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے مختلف لوگوں سے نہ صرف ملتے ہیں بلکہ کئی معاملات میں ان پر انحصار بھی کرتے ہیں. زندگی کےان مراحل سے گزرتے ہوئے ہم مشاہدات اور تجربات کرتے ہیں، انھی کی بنیاد پر اور پیشِ نظر ہم سب کی سوچ بنتی ہے.

اسی سوچ کی بدولت ہم سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، پھر حالات و واقعات کو دیکھنے سمجھنے، پرکھنے اور جانچنے کی صلاحیت بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتی ہے. حالانکہ تمام بہن بھائی جن کی پرورش وہی والدین کرتے ہیں اور سب کو ایک جیسا ہی ماحول دیا جاتا ہے، پھر بھی ایک دوسرے سے کئی پہلوؤں میں نہ صرف مختلف ہوتے ہیں، بلکہ منفرد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بھی ہوتے ہیں.

ہم میں سے کئی لوگ مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں. ایسے لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے اعصاب مضبوط رکھتے ہیں، اور ہر مصیبت و آفت کا اپنی مثبت سوچ کی بدولت حل نکال لیتے ہیں، اور اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں، جبکہ وہیں کچھ لوگ منفی سوچ کے مالک ہوتے ہیں جو نہ صرف خود پریشان رہتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی بھی مشکل بنا دیتے ہیں.

ہم انسان ہیں لہذا کوئی بھی شخص کامل تخلیق نہیں کیا گیا . بہتر یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم خود کو ٹٹولیں، اپنی خامیوں پر قابو پائیں، اپنی کمزوریوں کو طاقت میں تبدیل کریں، خود پر کام کریں نہ کہ دوسروں میں برائیاں تلاش کریں. سب سے آسان کام خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم خود کا محاسبہ کرتے ہیں. خود کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں.

اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی میں مگن ہے یا کوئی کام کرتا ہے، یا کوئی فیصلہ کرتا ہے، تو ہم بلاوجہ اس میں مداخلت کیوں کریں یا اس کے اُس عمل پر اپنی رائے کیوں دیں. یاد رکھیں کہ یہ اُس کی زندگی ہے 'اسے اپنے طریقے سے گزارنے دیا جائے. ہم کسی دوسرے کے کسی بھی معاملے میں بولنے کے مجاز نہیں ہو سکتے، کیونکہ ہم اس شخص کی جگہ پر نہیں ہیں . اس کے اپنے حالات ہیں، وسائل ہیں، سوچ اور ضروریات ہیں، پھر وہ ان کے مطابق ہی اپنا ہر عمل ترتیب دے گا . ہم ان کے کسی بھی عمل کے جواب دہ نہیں ہیں، اور نہ ہی ہمیں مداخلت کا ، نکتہ چینی کا کوئی حق حاصل ہے اور نہ ہی رائے قائم کرنے یا اندازوں پر کوئی حتمی فیصلہ کرنے یا مشورے و نصیحتیں کرنے کی ضرورت ہے، لہذا جئیں اور جینے دیں.

اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد کو سب کے سامنے ڈانٹ یا مار رہی ہے تو وہ بہتر جانتی ہے کہ اس نے اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرنی ہے. ہمیں پسِ منظر یا صورتحال کا معلوم نہیں، اس لیے ہم کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے یا اس کو برا بھلا بولنے کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے.

کہتے ہیں نا کہ راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے. وہی بہتر جانتا ہے جس پر گزرتی ہے . جب تک ہم ان حالات سے گزرتے نہیں ہیں، اس وقت تک ہمیں سنگینی یا گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا ، لہذا اگر رائے دینا بہت ضروری ہے تو پہلے تحقیق کر لیں. بہتر ہے کہ خاموش ہو جائیں یا پھر کنارہ کشی اختیار کر لیں.

کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو اور جیسا ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے ویسا ہرگز نہیں ہوتا . ظاہری شکل و صورت، وضح قطع، کپڑوں، جوتوں، گاڑی یا زیرِ استعمال اشیاء سے ہم اندازہ نہیں لگا پاتے کہ سامنے والا انسان کیسا ہے. اپنی رائے دینے میں جلدبازی سے کام نہ لیں. اخلاقی قدروں کو عبور نہ کریں، اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرنا سیکھیں، اپنی سوچ کو گدلے عدسوں کا محتاج نہ کریں. ہمیشہ مثبت سوچیں اور خاموشی اختیار کرنا سیکھیں. مشاہدہ کریں، حالات و واقعات اور پسِ منظر کو سمجھیں. رائے قائم کرنے سے پہلے مکمل معلومات حاصل کریں، ورنہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے باز رہیں.

ایک دفعہ ایک خاتون اپنی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہے تو اسے ایک گھر نظر آتا ہے جس کے آنگن میں دھلے ہوئے کپڑے لٹکے ہوتے ہیں. اب خاتون روز اپنے خاوند سے یہی کہتی ہے کہ اس گھر کی خاتون کو کپڑے دھونے نہیں آتے ، دیکھو سارے کپڑے کتنے گندے ہیں. پھر اچانک اسے کپڑے صاف نظر آتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ آخرکار اس خاتون کو کپڑے دھونے آگئے. لیکن وہیں اس عورت کا خاوند کہتا ہے کہ آج اس نےوہ کھڑکی صاف کی ہے جس سے روز وہ دوسری طرف اس گھر کے آنگن میں دیکھتی تھی، اور تمام کپڑے گندے ہونے کی شکایت کرتی تھی. ہمیں دوسروں میں خامیوں کو نہیں بلکہ اپنی نظروں کی دھند کو صاف کرنا چاہیے. سارا مسئلہ ہماری سوچ کا ہوتا ہے.

ہمیشہ یاد رکھیں کہ کبھی بھی کسی پر بےجا تنقید نہ کریں ، انگلی نہ اٹھائیں بلکہ چپ چاپ مدد کرنے کی سوچیں. اگر قدرت نے آپ کو اس قابل بنا دیا ہے کہ آپ کسی کے کام آ سکیں تو اپنی اس نیکی کا ہرگز پرچار نہ کریں. دوسروں میں نقص نکالنا، باتیں بنانا بہت آسان ہوتا ہے . جب تک ہم دوسرے کے جوتے نہیں پہنیں گے تب تک ہمیں اندازہ نہیں ہو گا کہ جوتا کہاں سے چبھتا ہے یا وہ کہاں سے پھٹا ہوا یا اس میں سوراخ ہے اور پتھریلی زمین کیسے پاؤں کو چھلنی کر رہی ہے.

کبھی کسی کا برا نہ سوچیں. کسی کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کریں بلکہ اپنی سوچ کے دھارے کو دوسری طرف موڑ دیں جس میں سب کی بہتری ہو . اپنے دیکھنے کا زاویہ یا عینک کا عدسہ درست کر لیں، گرد صاف کر لیں، سب ٹھیک ہو جائے گا . معاشرے میں امن و سکون بھی ہو گا، بھائی چارے کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا ، ذہنی و دلی سکون بھی میسر آئے گا. ہماری سوچ کا ہماری شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے. یہ ہماری سوچ ہی ہے جو ہمیں بناتی اور سنوارتی ہے.

خوش رہیں، خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں.

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment