ہوم << والدین بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ -عارف علی شاہ

والدین بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ -عارف علی شاہ

"بچہ کیسے بنتا ہے؟"
ارے نہیں بھائی! یہ وہ سوال نہیں جو نظام تولید پر بحث والے کرتے ہیں، میں بات کر رہا ہوں کردار سازی کی۔
ایک انسان، جو معاشرے کا فخر بنتا ہے ۔ وہ آخر بنتا کیسے ہے؟
کیا اسکول میں؟ کیا مدرسے میں؟
نہیں، وہ تو کہیں اور سے شروع ہوتا ہے۔
جی ہاں، بات ہو رہی ہے تربیت کی پہلی یونیورسٹی کی ۔ یعنی ماں کی گود,بلکہ اس سے بھی پہلے!
آپ نے سنا ہوگا: نیت نیک، تو منزل پکی!

لیکن ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو اولاد کی آمد سے پہلے یہ نیت کرتے ہیں کہ ہم ایک نیک نسل تیار کرنے جا رہے ہیں؟
قرآن سورہ نور میں ایک فارمولا دیتا ہے:
پاک لوگ پاک لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ (النور: 26)

گویا تربیت کی شروعات وہاں سے ہوتی ہے، جہاں ماں باپ ایک دوسرے کا انتخاب کرتے ہیں۔ محبت، اعتماد، ایمان ۔ یہ سب بچے کے آنے سے پہلے کی فضا ہے۔جس میں ایک کردار پروان چڑھنے والا ہے۔
اب ذرا آنکھیں بند کریں اور تصور کریں: ایک ماں تلاوتِ قرآن کر رہی ہے، دعا مانگ رہی ہے، نرم بات کر رہی ہے۔ اور وہ بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں، وہ سب کچھ محسوس کر رہا ہے۔
سائنس بھی آج یہی کہتی ہے کہ ماں کے جذبات، الفاظ اور ماحول بچے کے دماغ کو ڈائریکٹ پروگرام کرتے ہیں۔
اور ہمارے دین نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا.
حضرت مریمؑ کی ماں نے ولادت سے پہلے دعا کی تھی:
یا اللہ! میں جو پیٹ میں ہے، اسے تیرے نام پر نذر کرتی ہوں۔
(آل عمران: 35)

کیا پیغام ملا؟
بچہ ماں کے پیٹ میں بس گوشت کا لوتھڑا نہیں۔ وہ ایک مکمل پیکیج ہے جسے تمہاری نیت، آواز، کردار اور دعا ترتیب دے رہی ہے۔
اب بچہ دنیا میں آ گیا۔ واہ واہ! اذان ہوئی، اقامت کہی گئی۔ دل نے کہا: بسم اللہ! سسٹم آن ہو گیا!
اب جو کچھ ماں کرے گی، بچہ سیکھے گا بغیر سمجھے، بغیر پوچھے، صرف دیکھ کر، سن کر، محسوس کر کے۔
ماں گال پر بوسہ دیتی ہے؟ بچہ محبت سیکھتا ہے۔
ماں جھوٹ بولتی ہے؟ بچہ سچ بھولتا ہے۔
ماں صبر کرتی ہے؟ بچہ ہمت سیکھتا ہے۔
ماں چیخ چیخ کے ڈرامے دیکھتی ہے؟ بچہ چیخنا سیکھتا ہے۔

یاد رکھیں! بچے کو کچھ سکھانے کی ضرورت نہیں، وہ آپ کو دیکھ کر سب سیکھ رہا ہوتا ہے۔
اسکول؟ ہاں، تربیت کا میدان ہے ۔ مگر خالی بیگ کے ساتھ نہیں!
اب بچہ اسکول جاتا ہے۔ بیگ، لنچ، یونیفارم سب کچھ تیار ہے۔

لیکن سوال یہ ہے:
کیا اندر سے بھی کچھ لے کر آیا ہے؟ یا صرف ڈبہ خالی ہے؟
اسکول کردار بنا سکتا ہے، بشرطیکہ کردار کی بنیاد ماں باپ پہلے ڈال چکے ہوں۔
استاد آدھا دن دیتا ہے، ماں باپ پوری زندگی۔
لہٰذا اگر اسکول کی فائل خراب ہو جائے، تو والدین کی ہارڈ ڈرائیو بچا سکتی ہے۔ مگر اگر فاؤنڈیشن ہی کمزور ہو، تو اسکول کتنا ہی زور لگا لے، کچھ نہیں بن پائے گا۔

ویسے، تربیت شروع کب کرنی ہے؟
جب بچہ بات سمجھنے لگے؟
نہیں!
جب وہ بولنے لگے؟
نہیں!
تربیت شروع کرنی ہے جب آپ اولاد کا سوچتے ہیں۔
جی ہاں، وہاں سے، دل، دعا، نیت، اور گھر کے ماحول سے۔
صرف DNA
کافی نہیں ، روحانی ڈھانچہ بھی چاہیے!

دیکھیے
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اگلی نسل جھوٹ سے نفرت کرے، قرآن سے محبت کرے، انصاف کو اپنائے، خودداری کے ساتھ جئے ۔ تو ہمیں دوبارہ وہیں جانا ہو گا جہاں سے تربیت کا سفر شروع ہوتا ہے
اب یہاں ایک سوال ابھرتا ہے، بلکہ چیختا ہے:
اور والد کہاں ہیں؟ تربیت صرف ماں کا کام ہے کیا؟"

تو سنیے بھائی!
اگر ماں گود ہے، تو باپ چھت ہے
اگر ماں جذبات دیتی ہے، تو باپ استقامت دیتا ہے
اگر ماں محبت کا سایہ ہے تو باپ حفاظت کی دیوار ہے

اسلام نے کبھی تربیت کو صرف عورت کی ذمہ داری نہیں کہا — بلکہ قرآن بار بار "قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ" (اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ) کا خطاب مرد کو دیتا ہے۔
باپ کا اندازِ گفتگو، لوگوں سے معاملہ، وقت کی پابندی، سچائی، دیانت، نماز کی اہتمام… یہ سب بچہ روز دیکھتا ہے — اور اپنے لاشعور میں جذب کرتا جاتا ہے۔
اگر باپ ہر وقت موبائل میں لگا ہو، غصے سے بات کرے، ماں کی عزت نہ کرے، نماز چھوڑ دے — تو بچہ کچھ کہے گا نہیں، لیکن سیکھ ضرور جائے گا۔
اور اگر باپ رات دیر سے آنے کے باوجود صبح فجر میں اُٹھتا ہے، بیٹے کو ساتھ مسجد لے کر جاتا ہے، بیٹی سے عزت سے بات کرتا ہے ۔ تو یہ سب تربیت ہے۔ وہ تربیت جو بغیر کلاس کے ہو رہی ہے، بغیر لیکچر کے۔

مگر
آج کے جدید دور کا ایک المیہ ہے:
باپ گھر میں ہوتا ہے، مگر موجود نہیں ہوتا۔
یا تو آفس کے بہانے، یا موبائل کی مصروفیت، یا خود غرضی کے چلتے ۔ والد خود کو صرف "کمانے والا" سمجھتا ہے، رہنما نہیں۔

یاد رکھیں!
بچہ باپ سے صرف جیب خرچ نہیں مانگتا، وقت، رہنمائی اور رشتہ بھی مانگتا ہے۔
اگر باپ یہ نہ دے پائے، تو بعد میں لاکھ ندامت ہو — تربیت کا وقت واپس نہیں آتا۔
باپ بیٹے کو اگر رونا حرام، غصہ حلال، جھگڑا جائز اور ضدی ہونا مردانگی سمجھا دے،
تو کل کا معاشرہ زہریلا ہو جائے گا۔

باپ کو سکھانا ہے کہ
"بیٹا! مرد وہ ہے جو معاف کرے، نرم بولے، صبر کرے، اور عزت کرے۔"
یہی بات حضرت لقمان نے قرآن میں اپنے بیٹے کو سکھائی،
بیٹا! نماز قائم کر، بھلائی کا حکم دے، برائی سے روک، اور صبر کر
اسی طرح بیٹی کے لیے باپ پہلا مرد ہوتا ہے اگر وہ عزت دے، تحفظ دے، اعتماد دے ، تو بیٹی پوری دنیا کا سامنا عزت سے کرتی ہے۔
ورنہ وہ محبت کو غلط جگہ تلاش کرتی ہے، کیونکہ باپ نے اسے محبت، اعتماد اور تحفظ دیا ہی نہیں۔

مختصرا
ماں گود دیتی ہے
باپ سایہ دیتا ہے
ماں جذبات دیتی ہے
باپ سمت دیتا ہے
ماں زبان دیتی ہے
باپ لہجہ دیتا ہے
اگر یہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ دے کر تربیت کریں تو یقین مانیں، اگلی نسل دنیا کے لیے رحمت بن جائے گی۔

Comments

Avatar photo

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

Click here to post a comment