آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتور اور موثر ذریعہ ابلاغ بن چکا ہے جس کے ذریعے معلومات کا تبادلہ انتہائی تیز رفتار اور وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پلیٹ فارم لوگوں تک صحیح معلومات پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن اسی تیز رفتار تبادلے کے باعث غلط معلومات کے پھیلاؤ کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
خاص طور پر اسلام سے متعلق مواد کو بغیر تحقیق کے شیئر کرنا، ایک عام سی بات بن چکی ہے، اور اس عمل کو بعض لوگ ثواب کا ذریعہ سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ تاہم، اس عمل کا دین اور دنیا دونوں پر نہایت منفی اثر پڑ رہا ہے۔اسلام میں علم کی انتہائی اہمیت ہے اور قرآن و حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کوئی بھی عمل یا بات بغیر تحقیق کے نہیں کی جانی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
"اور تم اس بات کے پیچھے نہ چلو جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں۔ یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب سے پوچھا جائے گا۔"
اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم جو کچھ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں یا پڑھتے ہیں، اس پر ایمان لانے سے پہلے اس کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔ جب ہم کسی مواد کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، تو ہم اسے دوسروں تک پہنچانے والے بن جاتے ہیں۔ اگر وہ معلومات غلط ہوں، تو ہم نہ صرف گمراہ ہو رہے ہوتے ہیں، بلکہ اس غلط معلومات کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ یہی بات اسلام میں بہت واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی غلط بات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے، وہ اس کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کسی گمراہ کن بات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے، اس کا گناہ اس کے پیچھے چلنے والوں کے گناہوں کے برابر ہو گا۔"
اس حدیث میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ہم بغیر تحقیق کے کسی غلط معلومات کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں، تو نہ صرف ہم گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ اس گناہ کا بوجھ بھی دوسروں پر منتقل ہوتا ہے جو اس غلط معلومات کو اپنے عمل کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی مرتبہ اس طرح کے پیغامات دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ "اس پیغام کو شیئر کرو اور تمہیں اتنی نیکیاں ملیں گی" یا "اگر تم نے یہ پیغام آگے نہیں بڑھایا تو تم پر گناہ ہوگا"۔ ایسے دعوے اکثر جھوٹے اور بغیر کسی دلیل کے ہوتے ہیں، اور اس طرح کے پیغامات صرف لوگوں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
ان میں زیادہ تر مواد بے بنیاد ہوتا ہے، اور اسلام میں اس طرح کی کسی بھی بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے باوجود، جب لوگ ان پیغامات کو بلا تحقیق شیئر کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف خود کو گمراہ کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"کسی بھی بات کو پھیلانے سے پہلے اس کا علم حاصل کرو، کیونکہ جو بات تم جانتے نہیں، وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے"۔
اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر جو عام طور پر غلط مواد پھیلایا جاتا ہے، اس میں نہ صرف اسلامی مواد شامل ہوتا ہے، بلکہ دنیا بھر کی دیگر معلومات بھی شامل ہوتی ہیں جو جھوٹی اور گمراہ کن ہوتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو مختلف مسائل پر افواہیں، جھوٹ اور غیر مصدقہ معلومات پھیلانے کے ذریعے متاثر کیا جاتا ہے۔ ان میں بعض مسائل معاشرتی، سیاسی یا معاشی نوعیت کے ہوتے ہیں جنہیں بغیر تحقیق کے آگے بڑھایا جاتا ہے، اور یہ نہ صرف فرد کی سوچ کو گمراہ کرتا ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (جھوٹا شخص) کوئی خبر لے کر آئے، تو تحقیق کرو، کہ کہیں تم بے خبری میں کسی قوم کو نقصان نہ پہنچا دو، پھر تم پچھتاؤ گے"۔
یہ آیت ہمیں اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ اگر ہمیں کوئی اطلاع ملے، تو ہم اس کی سچائی کی تحقیق کریں تاکہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ بہت سی پوسٹس میں صرف کسی سنسنی خیز یا جذباتی مواد کو شیئر کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اور اکثر یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ اس عمل سے زندگی بدل جائے گی یا معاشی خوشحالی ملے گی۔ لیکن حقیقت میں ان تمام دعووں کا کوئی حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اس طرح کے مواد کا پھیلنا لوگوں میں مایوسی، خوف اور اضطراب پیدا کرتا ہے، اور اس سے غلط فہمیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جب یہ غلط معلومات بڑے پیمانے پر پھیلتی ہیں، تو ان کا اثر نہ صرف فرد کی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں ان سے متعلق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب کچھ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ پھیلانے کے مقصد سے یہ مواد شیئر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ، افواہیں اور گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں جن کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا یا اس سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ کسی بھی معاشرتی اصول سے متصادم ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف اخلاقی طور پر نقصان دہ ہیں بلکہ یہ لوگوں کے درمیان بدگمانی، عدم اعتماد اور نفرت پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی مواد شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت کو جانچنا ضروری ہے۔ صرف اس بنیاد پر کسی بھی چیز کو آگے بڑھانا کہ وہ مقبول ہے یا اس پر لائکس اور شیئرز زیادہ ہیں، اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ وہ مواد درست اور مستند ہے۔
اس لیے ہمیں اس بات کا مکمل احتیاط کرنا چاہیے کہ ہم جو مواد شیئر کر رہے ہیں، اس کی سچائی اور حقیقت کو جانچنے کے بعد ہی اس کا پھیلاؤ کریں کیونکہ یہ ذمہ داری صرف عام لوگوں کی نہیں بلکہ پڑھنے لکھنے والے افراد کی بھی ہے۔ حال ہی میں میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا کہ میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں سیاسی کشیدگی کے حوالے سے ایک حدیث شیئر کی گئی تھی۔ اس پوسٹ کا حوالہ سنن ابن ماجہ کی حدیث 4019 سے دیا گیا تھا۔ جب میں نے اس حدیث کو چیک کیا تو مجھے اس پر شک ہوا اور میں نے تحقیق شروع کی۔ نتیجے کے طور پر یہ ثابت ہوا کہ وہ حدیث غلط تھی۔ اس بات کا علم مجھے اس وقت ہوا جب پوسٹ کرنے والا بھی اچھا خاصہ پڑھا لکھا شخص تھا، جو اس غلط حدیث کو شیئر کر رہا تھا۔
یاد رکھیے، سوشل میڈیا پر مواد شیئر کرنے کے عمل میں نہ صرف ہماری ذاتی ذمے داری شامل ہے، بلکہ ہمارے اس عمل کا اثر ہمارے گرد و نواح اور معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر شیئر کردہ مواد ایک پیغام ہوتا ہے جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی فرد کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مواد کو ذمہ داری کے ساتھ شیئر کریں اور اس کی حقیقت کو جانچنے کے بعد ہی دوسروں تک پہنچائیں۔ غلط معلومات کا پھیلاؤ کسی بھی سطح پر ہو، اس کا نتیجہ ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف دین اسلام کی حقیقی تصویر دھندلی پڑتی ہے بلکہ معاشرتی اور اخلاقی سطح پر بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ، لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے، اور وہ سچائی کی تلاش میں مزید گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کسی بھی مواد کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت کو جانچیں اور پھر ذمہ داری کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں۔
تبصرہ لکھیے