جب بھی یوم آزادی آتا ہے، ایک عہد یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیوں اور لازوال جدوجہد سے عبارت ہے۔ پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک اسلامی مملکت ملے گی جس میں اسلامی نظام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکیں گے۔گویا یہ مسلمانوں کی اس مقصد کےلیے دی گئی قربانیوں کو یاد کرنے، اس وعدہ کو نبھانے اور اس کے احساس وفا کا دن ہے۔
اگر عملا دیکھا جائے تو قوم کا ایک طبقہ اس دن کو ہر قسم کی اخلاقی پابندی سے بھی آزادی سمجھتا ہے اور کچھ لوگ اس دن تحریک پاکستان میں شامل مسلمانوں کی جدوجہد اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر بہت کم لوگ اس پر بات کرتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنایا گیا؟ کیونکہ اس کا تعلق عمل اور ذمہ داری سے ہے جسے پورا کرنا مشکل ہے، بلکہ فکر وعمل سے عاری اور ذہنی غلامی میں مبتلا طبقے نے اس ذمہ داری سے بچنے کےلیے مقصد پاکستان ہی کو تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی مملکت نہیں بلکہ سیکولر ریاست تھی. کوئی ان سے پوچھے کہ اگر محض ایک غیرمذہبی ریاست کا قیام مقصد تھا تو پھر متحدہ ہندوستان میں ہی رہنے میں کیا حرج تھا؟ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت اور قربانی کیوں دی گئی؟ سیکولرازم مذہب سے لاتعلقی اور عدم محض کا نام ہے، تحریک پاکستان اور اس کی عظیم قربانیوں کا مقصد عدم محض کیسے ہو سکتا ہے؟ دوقومی نظریہ کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ اقوام ہیں اور مسلمانوں کو ایک اسلامی ملک کی ضرورت ہے۔ اسلام کے علاوہ اور کون سی قدر مشترک ہے جو پاکستان میں رہنے والے کئی طبقات کو ایک قوم بنا سکے۔ ان سب سوالات کا جواب ایک ہی ہے کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، ان کے لیے ایک ایسی مملکت کا قیام ناگزیر تھا جس کی بنیاد اور نظام اسلام پر ہو۔
پاکستان کا قیام اور وجود، دوام اور بقا اسلام سے وابستہ ہے. تاریخ اسلام میں اس کی اگر کوئی مثال و نظیر ہو سکتی ہے تو وہ صرف ریاست مدینہ ہے کہ مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی. مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یکسر مختلف ہیں اور ان کا باہمی موازنہ بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے. وہاں ہر محاذ پر کامیابی قدم چومے جبکہ یہاں ہرجگہ ناکامی کا سامنا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے؟ وہ مسلم قوم اور امت تھی، ہم نے بھی اسی دعوے کے ساتھ ملک بنایا تھا. وہ بقول اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کے مصداق تھے، اور ہم کراچی سے خیبر تک ایک نہ ہوسکے. ان کا دو قومی نظریہ عالمی تھا جبکہ ہمارا نظریہ سرحدوں کا پابند ہے. انہوں نے ریاست کے لیے اسلامی معاشرہ کی تعمیر کی، ہم نےاسلام کو ریاست سے عملا جدا کر دیا۔ وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر اور ہم خوار ہیں زمانے میں تارک قرآن ہو. کر کسی نے خوب کہا ہے کہ 1947ء میں قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی، آج تقریبا ستر سال بعد ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے۔ یوم پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو نبھائیں اور اس عہد کو پورا کریں جو قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلمان لیڈروں نے کیا تھا کہ یہاں ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی مملکت ہوگی۔ آج پاکستان کو جتنے داخلی و خارجی خطرات درپیش ہیں، ان سب کا حل قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اے اللہ ہمیں توفیق عمل عطا فرما اور پاکستان کی حفاظت فرما۔ آمین
تبصرہ لکھیے