اللہ عزوجل کی رحمت بہت بڑی وسیع ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید و مایوس مت ہو ں،کیونکہ اس ذات کی رحمت اس کے غصہ پر حا وی ہے،اپنے گناہوں پر نادم ہو نا ہمارا کام ہے اور اپنی رحمت کے دریا بہا دینا رب العالمین کا کام ہے،اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں کے دروازوں پر آکر سوال کر تی ہے کہ رب کی رحمت سے فائدہ اٹھائیں،اور اپنے روٹھے ہو ئے رب کو منالیں، وہ ذات معاف کرنے والی ہے،اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں،اے نبی ﷺ! آپ کہہ دیجئے، اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے“ (سورۃ الزمر، 53)یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کسی بھی طرح انسان کو خدا سے دور کر دے، جب ایک بار وہ انسان کو خدا کے راستے سے بھٹکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اگلی چال یہ ہوتی ہے کہ انسان کو خدا کی رحمت سے مایوس کردے۔ اس طرح اسے ہمیشہ رب کی نافرمانی والے راستے پر چلاتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ جس چیز کی امید دلائی ہے وہ اس کی رحمت ہی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارک میں انسانوں کو مختلف طریقوں میں سب سے زیادہ خدا کی رحمت کی امید دلائی گئی ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کائنات کی ہر چیزپر حاوی ہے۔ پوری کائنات رحمت الٰہی کی مظہر ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ”میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے“ (الاعراف، 156) اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا (الانبیاء،107) اسی طرح شرعی احکامات میں بھی رحمت کی صفت کو نمایاں حیثیت دی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار ہیں وہ کیسے نماز کے لیے مسجد جائیں اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں! یاد رہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور اس طرح کے خیالات کے ذریعے شیطان ہمیں اللہ کے قریب ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس لیے ان خیالات کو جھٹک کر فوراً اللہ کے حضور سجدہ کر لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں بڑے سے بڑے گناہ گار کو بھی اس کی رحمت کی امید دلا کر خدا کے قریب ہوجانے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرنے کی طرف بلایا گیاہے۔ خدا کی طرف لوٹ آنے پر پچھلے تمام گناہ معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے نبی ﷺآ!پ کہہ دیجیے اے میرے وہ بندوجو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادے گا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے“ (الزمر، 53)۔ اس آیت مبارکہ کو قرآنِ مجید کی امید بھری آیت کہا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اپنا بندہ کہا ہے اور چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، صرف ایک دو گناہ کرنے والا نہیں بلکہ گناہوں میں حد پار کر دینے والے کو بھی اس آیت میں مخاطب کیا گیا ہے۔ سب کو یہ امید دلائی کہ تم اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک وہ تمام گناہ بخش دے گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں جو اس کے عرش کے پاس رکھی ہوئی ہے اپنے بارے میں لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (بخاری، 7404) یعنی اللہ تعالیٰ کو انسانوں کو سزا دے کر نہیں بلکہ انہیں معاف کرکے خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنی رحمت کی کتنی امید دلاتے ہیں ایک حدیث مبارک میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو واضح کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ یہ حدیث روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت ادھر سے ادھر دوڑتی پھر رہی تھی۔ جیسے ہی اسے ایک بچہ نظر آیا اس نے اس بچے کو پکڑ کے اپنے سینے سے لگالیا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟صحابہ کرام ؓ نے عرض کی نہیں۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عورت جتنی اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے (بخاری، 5999)۔ یہ حدیث رب کے نافرمانوں کو اس کی رحمت کی امید دلاتی ہے اور انہیں رب کی طرف لوٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔
اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے (وہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ رب سے روایت کرتے ہیں) جسے حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔چاہے تیرے اعمال جیسے بھی ہوں مجھے تیرے گناہوں کی کوئی پروا نہیں، اے ابن آدم! تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے تو میں تب بھی تیری مغفرت کر دوں گا،بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو (ترمذی،3540)اسی لیے اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان رکھنا واجب ہے۔ بندہ رب کے بارے میں جیسا گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح اس سے برتاؤ کرے گا۔ حدیث قدسی ہے ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔ (بخاری، 7505)ہمیں اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمت سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کر دے۔ یہ رب کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہوں پر فوراً انسان کی پکڑ نہیں کرتا۔”اگر اللہ لوگوں کے گناہوں پر ان کی پکڑ شروع کردے تو زمین میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے لیکن وہ انسانوں کو ڈھیل دیتا ہے۔“(سورۃ فاطر، 45)
اللہ عزوجل کا ہم سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ ہم خدا کی یہ صفت اپنے اندر پیدا کریں اور اس کی مخلوق پر رحم کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:”رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ تعالیٰ) مہربان ہو گا۔ اس لیے جو زمین پر ہیں ان پر رحم کرو تم پر وہ ذات رحم کریگی جو آسمان میں ہے۔(شعب الایمان، 10537) اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: رحم کرو، تم پر بھی رحم ہوگا، اور بخش دو تمہیں بھی بخش دیا جائیگا (مسند احمد)حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو لوگوں پر رحم نہیں کریگا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کریگا(مسند احمد)
قرآن و حدیث میں رحمت ِالٰہی کا حقدار بننے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو بھی ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرے گا، خدا اس کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا۔ چند مستحقین رحمت درج ذیل ہیں۔اللہ پر ایمان رکھنے والے (النساء، 175) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے (آل عمران، 132) قرآن پر عمل کرنے والے (الانعام، 155)، قرآن مجید کی تلاوت کو بغور سننے والے (الاعراف، 204) توبہ و استغفار کرنے والے (المائدہ، 39) تقویٰ اختیار کرنے والے (الانعام، 155) صبر کرنے والے(النحل، 110) احسان کرنے والے (الاعراف،56) صلح کرانے والے (الحجرات، 10)راہِ خدا میں خرچ کرنے والے (التوبہ، 99) منکر سے روکنے والے (التوبہ، 17) درگزر کرنے والے (التغابن، 14) نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے والے (مسلم، 408)حضورﷺ سے سوال کیا گیا”کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟“ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف رہنا اور یہی سب سے بڑا گناہ ہے۔“اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق اور اپنی رحمت کاملہ نصیب فرمائے۔آمین
تبصرہ لکھیے