فلسطین کا مسئلہ آج دنیا کے پیچیدہ ترین اور دیرینہ تنازعات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک خطے کا جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، مذہبی جذبات، ظلم و بربریت، اور عالمی طاقتوں کی بے حسی کی واضح مثال ہے۔ فلسطینی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت، مظالم، قتلِ عام اور جبری بے دخلی کا شکار ہیں۔ غزہ کی پٹی مسلسل بمباری، ناکہ بندی، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔ بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں، مگر عالمی برادری کی طرف سے عملی اقدامات کی کمی اس دردناک کہانی کو طول دیتی جا رہی ہے۔
آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ قبلۂ اول، مسجد اقصیٰ، وہ مقدس مقام ہے جس سے مسلمانوں کا قلبی، روحانی اور مذہبی رشتہ ہے۔ وہاں ہونے والی بے حرمتی ہر مسلمان کے دل کو زخمی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک کی اکثریت صرف بیانات تک محدود ہے، اور عملی طور پر فلسطینیوں کی مدد کے لیے کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ سب سے پہلے، ہمیں اس مسئلے کو صرف ایک سیاسی تنازع نہیں بلکہ انسانی المیہ سمجھ کر اس پر غور کرنا چاہیے۔ بطور مسلمان، قرآن و سنت ہمیں مظلوم کا ساتھ دینے، ظالم کے خلاف آواز اٹھانے، اور اتحاد و یگانگت کی تلقین کرتے ہیں۔
ہماری پہلی ذمہ داری شعور بیدار کرنا ہے ۔ اسکولوں، کالجوں، مساجد، اور سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطینی مسئلے کی حقیقت کو اجاگر کریں۔
دوسری اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں فلسطین کو نہ بھولیں۔ دعا ایک مؤثر ہتھیار ہے، خاص طور پر جب وہ دل سے اور یقین کے ساتھ کی جائے۔
تیسری ذمہ داری ہے مالی و مادی مدد ، بہت سی عالمی و مقامی تنظیمیں فلسطین کی امداد کے لیے کام کر رہی ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم دل کھول کر ان کی مدد کریں۔
چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم بائیکاٹ کریں اُن کمپنیوں، برانڈز اور اداروں کا جو اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ہمارے روزمرہ کے انتخاب بھی مزاحمت کی ایک شکل بن سکتے ہیں۔ اسی طرح، ہمیں اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ فلسطین کے حق میں مضبوط مؤقف اپنائیں، عالمی فورمز پر آواز بلند کریں، اور اسرائیلی مظالم کی مذمت میں دو ٹوک الفاظ استعمال کریں۔
آخر میں، ہمیں فلسطین کے لیے صرف وقتی جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرنا، بلکہ مسلسل اور سنجیدہ کوشش کرنی ہے۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس میں مستقل مزاجی، قربانی، اور خلوص کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور نبھائیں، تو ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب فلسطین آزاد ہوگا، اور مسجد اقصیٰ میں دوبارہ امن و سکون سے اذان کی صدائیں گونجیں گی۔
تبصرہ لکھیے