ہوم << غزہ ایک قتل گاہ اور امت کے اعلامیے - خادم حسین

غزہ ایک قتل گاہ اور امت کے اعلامیے - خادم حسین

دنیا تیزی سے ترقی و پیش رفت کررہی ہے ۔ انسان کی ضروریات اور دیگر امور میں دستیابی آسان سے آسان تر ہوتی جارہی ہے۔ پتھر کے دور سے سفر کرتا انسان اب خلا کی تسخیر اور ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کا اہل ہوا ہے تاہم انسانیت کی معراج اور عدل و انصاف کی فراہمی کے باب میں دنیا تنزلی اور ابتری کی جانب رواں دواں ہے ۔حقوق انسانی کے علمبردار اور فلاحی ادارے تو ہر گزرتے وقت کے ساتھ بن رہے ہیں انجمنیں تنظمیں اپنے اعلانات اور سرگرمیوں سے یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ دنیا میں اب کسی بھی افراتفری اور مظالم کی گنجائش نہیں ہے. تمام انسان برابر ہیں اور سبھی کے مفادات مشترک اور باہم مربوط ہیں ۔ ہاں یہ الگ بحث و موضوع ہے کہ یہ کہاں تک ان بیانات اور مقاصد میں کامیاب ہوئے نیز ترقی کے اس دور میں سرمایہ داری نے معاشروں کے درمیان کس قدر خلیج اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی ہے یہ اور بہت کچھ تشنہ لب امور ہیں ۔ کیا جتنی ترقی اور علوم و فنون میں انسان آگے بڑھے ہیں کیا اسی تناسب سے انسانیت کی اقدار ترقی کر سکی ؟جواب یقینا نفی میں آئے گا ۔

تاریخ میں ہمیشہ سے زورآور نے اپنا بیانیہ آگے رکھنے کی بھر پور کوشش کی اس پر مستزاد اپنے جبر و استبداد کو دنیا کے سامنے دفاع اور حق کہا اور دنیا کے زرائع ابلاغ و نشریات کی مدد سے اس جھوٹے اور من گھڑت بیانیے کی ہر ممکن توجیح و تشریح پیش کی ۔ جہاں سرمایہ مثبت کردار نبھاتا ہے وہی اگر یہی طاقت و ثروت ان ہاتھوں میں چلی جائے جن کا کام محض معاشرے کو لوٹنا اور دھونس و دھمکی کا بازار گرم کرنا ہے تو لازمی امر ہے یہ مجموعی طور پر یہ سرمایہ انسانیت کے لیے لاینحل مسائل کا موجب بنتا ہے ۔ یہی سب ہوتا دیکھ رہے ہیں طاقت کا غلبہ ہے اور اسی کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ ملکوں کے سرمایہ داروں کو ہی لے لیجیے کہ ان کا سرمایہ مال و دولت اور اثرورسوخ کن امور کے لیے وقف ہوتا ہے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ سارا سرمایہ کہیں نہ کہیں ان جنگوں میں صرف ہوتا ہے جو وسائل کی لوٹ مار ، طاقت کے اظہار کے زریعے پالسیاں منوانا کے لیے لڑی جاتی ہیں گویا ایک طرح سے ان کا کام ہی تقسیم کرو ، حملے کرو اور پھر لوٹ مار کرو کا نعرہ ہے ہمیشہ سے۔ فلسطین کے سارے مسئلے میں اب تک انہی ملکوں نے کھل کر ان قابض اسرائیل کی مدد کی جو براہ راست اسرائیلی ریاست کے قیام کے حامی تھے اور ابھی جو کچھ جنایت کاریاں ہورہی ہیں مظلوم و محکوم فلسطینیوں کے خلاف ، ہر ممکن تعاون کرتے ہیں اور ہر طرح کی عسکری کمک بہم پہنچانے کے لیے کھڑے ہیں ۔

اقوام عالم میں حریت پسند انسان جہاں بھی فلسطین کے لیے صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں ان کی آواز کو دبانا اور جھوٹی خبروں کو بے سروپا الزامات عائد کر کے غلط بیانی کرنا ان ممالک کا الگ جرم ہے ان ممالک کا ۔ مسلم ممالک کے عوام کسی حد تک غزہ کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق ظالم کے خلاف کچھ مزاحمت ضرور دیکھا رہے کہی بائیکاٹ تو کہی پر دھرنے احتجاجات اور شوسل میڈیا کیمپینز کے توسط سے لیکن حکومتیں فی الحال خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں اور کہیں بھی ایک منظم تحریک کی صورت فلسطین کی مدد ، سفارت کاری کا استعمال ، آو آئی سی نامی مردہ گھوڑے کی زریعے کچھ زبانی کلامی مذمت و نفرین ظالم و جابر اسرائیلی ریاست کے خلاف اور عسکری طور پر کچھ نہ کچھ امداد دینے سے آج تو قاصر نظر آتی ہیں ۔ یہی رویہ اور دوغلی سفارت کاری ہے جس کے سبب غزہ لاشوں کی سرزمین اور مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔

ایک دور تھا جب یہ تاثر عام تھا کچھ کہیں ہلکی پھلکی آس و امید بھی کہ مسلم امہ متحد ہے دشمن کے خلاف اور ان سبھی کا دشمن مشترکہ ہیں لیکن اب تو اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ حالات بن گئے ہیں کہ یہ خود آپسی اختلافات اور باہمی چپکلش کے سبب بے بسی اور لاچاری کی عملی تصویر بن کر خود ہی غیروں کے رحم و کرم پہ زندگی گزارتے ہیں ، ریاستیں چلاتے ہیں ۔ یہ مدہوش حکمران طبقہ اپنے عوام کے حقوق میں مجرم اور غفلت کے شکار ہیں یعنی مسلم ممالک کے ہاں رعایہ خود مظلوم اور پسی ہوئی ہے جن کا اپنا کوئی ولی وارث نہیں کہنا کا مطلب ہماری اپنی حالت پتلی اور ابتر ہے ہم دوسروں کے محتاج اور قرض دار بنے بیٹھے ہیں ۔ مانگے تانگے پہ گزر بسر ہوتا ہے چہ جائیکہ ہم فلسطینی مظلومین کے لیے کوئی امداد کریں اور اسرائیلی غاصب قبضے کے خلاف بھرپور عملی اقدامات اٹھائیں، ہر فورم پر اس جابرانہ تسلط اور غزہ پہ جاری بمباری کا منہ توڑ جواب دینے کی ہمت پیدا کریں تاکہ فلسطین کے بچے کچھے نونہال بچے بزرگ اور یتیم بچ سکیں ۔ حالیہ کچھ عرصے سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری ہے ظاہرا تو اس کا کچھ اثر نہیں ہوا کہ جس سے اسرائیل غزہ پہ حملے بند کر سکے اور پسپائی پر مجبور ہوا مگر یہ بھی ایک فریضہ ہے ایک احساس کی رمق ہے امتی ہونے کی نشانی ہے جس کو ادا کر کے ہم بروز محشر یہ کہنے کے قابل ہوجائیں گے کہ ہم بس یہی کچھ کرسکے، اس کے آگے ہماری استطاعت نہیں تھی ۔ تاہم یہ اقدام ظالم کو روکنے کے لیے ناکافی اور بے اثر ہیں اور یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ چلتا رہے پھر بھی اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئے گا ۔ وہ اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت غزہ کو کھنڈر میں بدل رہا ہے، مسلسل بمباری اور انسانی جانوں کے زیاں سے بہت کچھ آبادی پر فرق پڑا ہے. سوچیے پچاس ہزار سے زائد نفوس کی شہادتیں لاکھوں بے یار و مدد گار بے گھر سر آسمان تلے مجبور کیے ہیں اسرائیلی کی جعلی اور فرعونی ریاست نے ۔ لیکن یہ بات حوصلے والی ہے کہ مزاحمت اور شوق شہادت جو غزہ کے نہتے مظلوں کے دلوں میں موجزن ہے میں سر مو بھی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ اسی مسلسل قربانی اور مقاومت گروہوں کے طفیل اسرائیل آج تک اپنے قیدی آزاد نہیں کراسکا نہ ہی اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوا جس وہ کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں ۔

دراصل یہ معرکہ مسلم امہ کا امتحان ہے اور عملا میدان میں وارد ہونے کا موقع ہے کہ ہر ممکن کوششوں سے فلسطین کے لیے جد وجہد کریں قابض ریاست کو بے دخل کرنے نیز اقوام عالم میں ان کے جرائم پر بھرپور آواز بلند کرکے ان سبھی کرداروں کو سزا دلوانے کے لیے سب مل کر مقدمہ لڑیں جنھوں نے فلسطینی سرزمین کو کھنڈرات میں تبدیل کیا اور وہاں کی آبادی کو آگ و خون میں غلطاں کیا ہے ۔ امت کی ذمہ داری سنگین ہے غزہ پکار رہا ہے مگر افسوس مسلم امہ فرضی فتوے اور جذباتی بیانات سے آگے ڈھیر ہوجاتی ہے ۔ کیا ہی اچھا اور راست اقدام ہوتا جب عالم اسلام کے نامی گرامی علما مشائخ اور صاحبان اقتدار مسئلہء فلسطین کے لیے بھی یکجا اور متحد ہوتے جس طرح اپنے مسلکی امور اور امت کے مابین اختلافی پہلوؤں کو ہوا دینے والے مسائل پر اکثر ایک پیج پر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے زمین تنگ کرنے کی ہر ممکن طریقے اور بیان بازیاں نیز فتنہ فساد کروانے کا موجب بنتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف عوام کو اکساتے ہیں توہین آمیز رویے اپنائے جاتے ہیں محض فقی اور سطحی امور پر وہ بھی اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے امت کا مشترکہ دشمن ہماری میراث کو لوٹ رہا ہے قبلہء اول جل رہا ہے ہماری تحقیر کا سامان ہر سمت مہیا ہے اس سب کے باوجود مکمل بے بسی کی شکل بنائے آپسی اختلافات اور باہمی نزع کا باعث بننے والے امور کو لیے ایک دوسرے کی تکفیر پر بضد ہیں ۔ کون سمجھائے ان کو کہ یہ وقت ایک بس ایک ہونے کا ہے ۔

وقت کم ہے غزہ کے نہتے بچوں کے پاس خدارا عملی طور پر آگے آئیں آپس کے تنازعات اور مسلم امہ کے داخلی مسائل کو فی الحال پرے رکھ دیجیے ایک دوسرے کو قبول کریں فقی اختلافات ایک دوسرے کو دائرے اسلام سے خراج کرنے کی مذموم اور دین دشمن روش ترک کردیں ایک مکے کی مانند مشترکہ دشمن پر توجہ مرکوز کریں یہ سب فقی اختلافات بعد میں دیکھ لیں ابھی غزہ پہ ایک ہو جائیں ۔ فلسطین کی بقا اور ان کو قابض دشمن کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ناگزیر ہے کہ مسلم امت آپس میں ایک ہو ایک دوسرے کا دست وبازو بنیں تاکہ امت کا ایک جامع تصور ابھریں ورنہ یہ امت نامی لفظ ہی لغو ہے اس کا ظہور ہماری مشترکہ کاوشوں اور ایک دوسرے کے مددگار بننے سے ہوگا پھر ایسا کہنا درست ہو کہ ہم ایک امت ہے اور ہماری بقا اور سلامتی بھی ایک دوسرے پر موقوف ہے ۔ زیل کے شعر میں یہی مفہوم پنہاں ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر