تعلیم علم اور معلم ایک کارآمد زندگی کے اہم جزو ہیں۔ تخلیق آدم یعنی اول بشر اور ان کی برتری فرشتوں کے آگے علوم کی بنیاد پر تھی۔ اسی علم کی وجہ سے انسان مسجود کی مسند پر بٹھایا گیا اور اس کے آگے فرشتے اپنی جبیں جھکائے ہوتے تھے۔ علم کی خاطر تگ و دو کرنے کو اصل شیوہ حیات بنانا لازم ہے۔ زمانے کے حالات، چال چلن اور دوڑ میں شریک ہونے کے لئے لازم ہے کہ علم کے حصول کو ترجیحات زندگی میں شامل کیا جائے۔ جو وقت کی چال کے مطابق اپنی چال نہ چل سکا اس کی زندگی میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا ماضی، حال اور مستقبل تینوں ہی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی یہی دوڑ لگانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ تعلیم کا مقصد فقط مستقبل کو بہتر بنانا یا کوئی پیشہ اختیار کرنا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد انسان کا انسان بننا ہے۔ بظاہر تو ہر کوئی انسان ہے مگر باطن کی تطہیر کر کے انسان بننا کسی اور شے کا نام ہے۔
حضرت واصف علی واصف رح فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے والدین پنجابی بولتے ہیں تو ان کے آگے انگریزی نہ بولنے لگ جانا، کیونکہ علم ادب ہی کا نام ہے۔ موجودہ ترقی کی طرف گامزن زمانہ میں انسان مختلف طور طریقہ سے علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کتاب پڑھنا یا کتب بینی جیسے مشاغل کو ہمیشہ اقوام نے فوقیت دی ہے۔ کتب بینی ہی سے علوم کا حصول اور ان علوم کی عملی شکل ترقی کے حصول کو تکمیل کا لبادہ اڑھاتی ہے۔ اقوام کی ترقی اور تنزلی میں کتب بینی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یعنی ترقی کی منزلیں تعلیم ہی کی سیڑھی پر چل کے طے کی جاتی ہیں۔ اور علوم کا حصول کتب بینی اور صاحب علم ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سے ظاہری مسائل کا سامنا ہے وہاں کچھ گہرے اور اندرونی مسائل کا سامنا بھی ہے۔ کتب بینی کا فقدان ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جو بظاہر پوشیدہ ہے مگر اپنے اندر آنے والے وقت کی تنزلی کا اشارہ دیتا ہے۔ کتب بینی ایک ایسی خصلت ہے کہ جس کی بدولت دیگر عادات اور اطوار بہتر ہو جاتے ہیں۔ کتاب کو پڑھنے والا، مطالعہ کا شوقین آدمی جب اندھیرے میں بھی ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ کتاب جہاں خلوت میں دوستی و وفاداری کا ثبوت دیتی ہے وہاں محفل میں برمحل بات چیت کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ کتاب انسان کے ذہن کو کھولتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔
کتب بینی سے جہاں انسان کا ذہن روشن اور منور ہوتا ہے وہاں اس کی معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں بھی اضافہ ہوتا ہے، علم کا حصول کتب بینی ہی سے ممکن ہے۔ تحقیق و تنقید ہر دور میں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ کتب بینی سے انسان میں تحقیق تنقید اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسان دینی، قومی اور بین الاقوامی امور میں ایک واضح سوچ و فکر رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ صاحب رائے کہلایا جاتا ہے۔ ایک کثیر المطالعہ شخص کسی جھوٹے پروپیگنڈوں کی نزر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ اصل اور نقل کی پہچان کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کی سوچ و فکر میں پختگی جب پروان چڑھتی ہے تو وہ اہم امور پر اپنا نکتہ نظر پیش کر سکتا ہے۔ جب وہ عوام و خواص میں اپنا نکتہ نظر پیش کرے گا تو اس کی بات کو اہمیت دی جائے گی اور قدر و منزلت بھری نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
ہمارے ہاں کتب بینی کے رجحان کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور کیسے ختم کی جا سکتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات جاننا لازم ہیں۔ عام عوام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کتب بینی کا فائدہ نہیں ہے اور سکول کالج و جامعات میں صرف رٹہ سسٹم کو رائج کیا گیا ہے۔ طلباء و طالبات میں سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو چکی ہے۔ والدین صرف زیادہ نمبر کے حصول پر توجہ دیتے ہیں اور یہ بیماری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ بھی ہے سب افسانہ ہے
یعنی کتاب کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ اس سے روح کو تسکین ملتی ہے اور سکون کا سامان ہوتا ہے۔ اور کتاب کے علاوہ جو کچھ بھی ہے سب حباب کی مانند ہے۔ اس صدی کو کتابوں کی آخری صدی نہ بننے دیا جائے۔ اپنے طور پر لوگوں میں آگاہی مہم چلانی چاہیے، پڑھے لکھے افراد کو اس میں کردار ادا کرنا ہوگا پبلک لائبریریوں کے قیام، وہاں کتابوں کو آسانی سے مہیا کرنے سے اس ٹارگٹ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنا بہت ہی لازم ہے علاوہ ازیں اندھیروں میں دھکے کھانے سے منزل تو کجا راستہ بھی نہیں ملے گا۔
تبصرہ لکھیے