ہوم << میرا پہلا سرکاری پیار - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

میرا پہلا سرکاری پیار - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

کچھ عرصہ قبل یو ٹیوب پر پاکستان ریلوے کے ایک ٹریول وی لاگر۔۔کا پروگرام۔۔ سانگلہ ہل۔۔کے بارے دیکھا ،تو مجھے اس شہر سے اپنا پہلا "سرکاری پیار" یاد آگیا۔

اتفاق سے چند دن بعد۔۔تین اپریل ۔۔کی وہ تاریخ بھی میری زندگی میں 40 ویں بار پھر سے لوٹ کر آئی ،جب میں نے 1985 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر شپ کے لیئے کوالیفائی کرکے۔۔بطور لیکچرر عربی اپنی سروس کا آغاز کیا، جو تقریباً 32 سال بعد 2017 میں میرے دوسرے سرکاری پیار۔۔فیصل اباد ۔۔میں اختتام پذیر ہوئی۔

اگرچہ عمر رفتہ نے بار بار اور پلٹ پلٹ کر عہد رفتہ کو آواز دی،مگر گردش لیل و نہار اور دوسری جبری محبتوں نے اس پہلی محبت کو بھلا تو دیا،مگر اس کی کسک کو دل میں اور پہلی محبت کی چنگاریوں کو یادوں کی خاکستر میں چھپائے رکھا ۔
ٹریول وی لاگ نے چالیس سال کی ان دبی یادوں کو کریدا بھی اور بھڑکا بھی دیا۔۔

سانگلہ ہل۔۔۔پنجاب کا ایک خوبصورت،قدیم،اہم اور معروف شہر ہے جو لاہور سے فیصل آباد ،وزیر اباد اور شورکوٹ کے ریل راستوں کا سنگم ہے۔۔
سانگلہ ہل پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں واقع ہے۔ اور یہ تحصیل سانگلہ ہل کا صدر مقام ہے۔

پنجاب کے روایتی زرعی علاقوں میں سے ایک اور زرخیز ترین شہر۔۔روایتی ذاتوں اور قبیلوں کا مسکن،
روایات کے مطابق سکندر اعظم اور اس کے لشکریوں کا پڑاؤ بھی رہا۔
زراعت کے علاوہ ہاتھ سے قالین بافی کا بہت بڑا مرکز بھی شمار ہوتا ہے۔

اس علاقے میں تین پہاڑیوں میں سے دو کی بنیاد پر "ہل"..hill ۔۔اسٹیشن کہلاتا ہے۔تیسری پہاڑی دس پندرہ کلومیٹر دور۔۔ شاہ کوٹ ۔۔میں موجود ہے۔۔اگرچہ یہ سارا علاقہ میدانی ہے ،مگر یہ تین پہاڑیاں نجانے یہاں کیسے بھٹک کر آبسیں۔

شاید تاریخ کے صفحوں میں کچھ رقم اور محفوظ ہو۔مگر سچی بات ہے،مجھے ان پہاڑیوں سے کبھی انسیت نہیں رہی۔اگرچہ انہیں اڑھائی سالوں کے دوران ہر صبح آتے اور واپس جاتے اُچٹتی سی نظروں سے ضرور دیکھا،کہ اس کے پاس سے گزر کر ہی مجھے اپنے پہلے سروس اسٹیشن ۔۔گورنمنٹ کالج سانگلہ ہل جانا پڑتا۔ یہ کالج انھی دو پہاڑیوں کے پہلو میں ایک وسیع وعریض قطعے پر موجود تھا،اور اس کے قریب ہی ایک دوسرے نمایاں و معروف مقام کے سامنے ان پہاڑیوں کی مانند دبا دبا سا رہتا۔۔یہ مقام یقیناً ۔۔فوجی شوگر مل۔۔تھا اور ہے،جس کے دھوئیں اور گنے و شکّر کی میٹھی خوشبوؤں سے اور طاقت و قوت کے نشانات و علامتوں سے پورے ملک کی سیاست و اقتدار کی طرح ہر قسم کے ماحول پر اس کا حاوی ہونا ایک حقیقت ہے۔
مجھے یاد ہے ان اڑھائی سالوں میں ہم نے ان دو پہاڑیوں کا تذکرہ تو شائد ہی کبھی کیا ہو،البتہ اس شوگر مل کے تذکرے اور قصے تو بارہا سنے۔
ویسے چالیس سال پہلے ان پہاڑیوں میں دیکھنے کو کچھ تھا بھی نہیں۔سنا ہے اب یہاں ایک خوبصورت پکنک سپاٹ بن چکا ہے۔

سانگلہ ہل کی پہاڑی نجانے کتنے فٹ بلند ہے۔اور مجھے اس سے غرض بھی نہیں ۔شائد 60 فٹ ۔البتہ یہاں کی کچھ شخصیات اور علمی و تحقیقی کارنامے اس قدر بلند ہیں ،جو تاریخ میں سانگلہ ہل کو اس کی پہاڑی اور فوجی شوگر مل سے کہیں زیادہ بلند قامت رکھیں گے ۔اس کے دو حوالے ہی فی الوقت مجھے یاد ہیں۔۔۔ایک۔۔ تو نظامی خاندان ۔۔بشیر نظامی ،حمید نظامی ،مجید نظامی وغیرہ
دوسرا۔۔ دورافتادہ اور غیر معروف کالج کے اساتذہ کا وہ علمی و تحقیقی بلکہ تاریخی کارنامہ جو کالج میگزین کے کم وبیش ایک ہزار سے زائد میگزین سائز کے صفحات پر مشتمل منظر عام پر آیا جس میں سانگلہ ہل کی تاریخ،سیاسی جدوجہد،سیاسی شخصیات اور معاشرتی روایات و سماجی اقدار کی تمام تفاصیل موجود ہیں۔۔بلاشبہ یہ ایک عظیم کارنامہ اور علمی و تحقیقی شاہکار تھا،جسے ملک بھر میں سراہا گیا۔۔
اس میں میرا کنٹریبیوشن اس لیئے نہ تھا کہ یہ میرے وہاں سے ٹرانسفر ہونے کے بعد مرتب ہوا اور منصۂ شہود پر آیا۔ویسے اگر میرے وہاں قیام و تعلق کے دوران بھی ہوتا تو شائد مجھ نئے نویلے لیکچرر،جاہل اور مسافر کی کیا کنٹریبیوشن ہوسکتی تھی۔!

سانگلہ ہل یقیناً ایک hill station قرار دیا جاسکتا ہے۔کچھ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوکر کہ یہ بھی مری،ایوبیہ،نتھیا گلی اور دیگر گلیات جیسا دلکش اور ٹھنڈا اسٹیشن ہوگا،یہاں ٹرانسفر کا اشتیاق دکھاتے،مگر بقول شاعر
"ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ"
یہاں آکر hill station والے سب جذبات ماند اور امیدیں دم توڑ دیتی ہیں ۔
البتہ لاہور،فیصل اباد اور دیگر بڑے شہروں کے نئے منتخب ہونے والے لیکچررز کے لیئے اپنے شہروں میں ٹرانسفر ہونے تک یہ ایک۔اچھا اور approachable سروس اسٹیشن ہے۔
یہ شہر ویسا ہی میدانی علاقہ ہے،جیسا پنجاب کے اکثر علاقے ہیں۔نہ یہاں غیر معمولی ٹھنڈ ہوتی ہے،نہ تفریح کا کوئی موقعہ اور نہ ماحول کی دلکشی ملتی ہے۔اس پر مستزاد اس علاقے میں سیم و تھور اور زمینی کلر کی بہتات۔۔پھر کالج شہر سے باہر اور اجاڑ سے ماحول میں واقع ہے۔جہاں کالج کے آخری پیریڈ ختم ہوتے ہی انسان تو کیا،کوئی اُلّو بھی نہیں ملتا جو بولے۔
کبھی کبھار سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی مسافر بس یا نجی گاڑی شاہکوٹ کی مین روڈ کی جانب سفر کرتی سنائی اور دکھائی دیتی۔
کالج میں شائد کوئی چوکیدار ہوگا،مگر تب رہائش گاہ تو کسی کی نہ تھی،اور نہ ہی رہنے والا ماحول اور نہ ہی حوصلہ کسی کا۔
سوائے ایک چھوٹے سے کمرے کے جس میں ان دنوں لاہور سے تعلق رکھنے والے دھان پان سے پروفیسر قمر الزمان مرحوم اکیلے رہتے،یا شائد کبھی کبھار کوئی ایک آدھ پروفیسر جسے گھر واپس جانے سے زیادہ یہاں کے جنگل نما ماحول میں رہنے میں "عافیت" محسوس ہوتی۔

لاہوری پنجابی بولنے اور سرخ و سپید رنگت والے پروفیسر قمر الزمان صاحب مرحوم انگریزی کے استاد تھے ،کالج کی انگریزی خط و کتابت، یعنی دفتری امور کے انچارج تھے۔۔ہر وقت پڑھتے اور لکھتے رہتے۔ان کی تنہائی کی طرح ان کی چائے بھی بہت مشہور تھی۔۔تیز پتی والے قہوے میں "بقدرِ اشک بُلبل" دودھ کے چند قطرے۔۔ قسم توڑنے کے لیئے یا مالی بچت کے لیئے۔۔ہم تو بہت جونیئر تھے،سو سراغ نہ لگا سکے۔۔ویسے بھی ان باتوں سے ہمیں کوئی مطلب تھا،نہ وقت۔۔سوائے ٹرین کے اوقات اور بروقت گھر پہنچنے کی جستجو کے۔
(جاری)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment