اے سی کے اس ٹھنڈے ٹھار کمرے میں کشمیر میں بہتے گرم لہو کی بابت سر جوڑ کر بیٹھنے والے یہ لوگ جن کے چہرے سے رعونت ٹپک رہی ہے بھارتی سیاستدان ہیں۔ اس بحث کا حتمی نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلنا کہ کیسے جموں کشمیر میں ایک بار پھر ابھرتی تحریک اور بھارت مخالف مظاہروں کی گرد بٹھائی جائے جو حزب المجاہدین کے نوعمر کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اٹھی تھی اور اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی، آج بھی بھارت کا یوم آزادی ، یوم سیاہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
برہان وانی اپنے تعلیمی کیرئیر میں بلا کا ذہین بچہ تھا۔ وہ ابو کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ وانی کے والد جب کہتے کہ تم لوگوں کا فری علاج کروگے تو وہ بڑی معصومیت سے کہتا کہ اس طرح تو لوگ سمجھیں گے کہ میں اچھا ڈاکٹر نہیں ہوں، جبھی فری میں علاج کرتا ہوں۔ چلیں میں پیسے لے کر بعد میں چُپکے سے واپس کردیا کروں گا۔ جس پر والد مسکرا دیتے۔ میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے والا لڑکا قلم چھوڑ کر بندوق تانے کیوں کھڑا ہوا یہ سوال شاید کشمیریوں اور پاکستان سمیت دنیا میں بسنے والے تمام آزادی کے متوالوں کے لیے اچھنبے کا ساماں نہیں، کیوں کہ جب ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو اپنے اس پیدائشی حق کے لیے اسلحہ نکلتا ہے۔
اگرچہ ہندستان میں بسنے والے چند حلقوں میں بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر کے حوالے سے حقیقی تشویش ضرور پائی جاتے ہے اور یہ خفیف سی آوازیں ہر کچھ دنوں بعد دبے دبے انداز میں بھارتی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں مگر نہ تو یہ آوازیں اتنی توانا ہیں کہ انصاف کے علمبرداروں کو جگا سکیں اور نہ یہ اتنی منظم ہیں کہ بھارت میں مجموعی طور پر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، کے موقف پر کوئی اثر ڈال سکیں۔ مین سٹریم بھارتی میڈیا، سیاستدان اور فوج سمیت دیگر ادارے اس وقت ایک پیج پر ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اس صورتحال پر غور کریں اور سدِ باب کے لیے ایک مستقل حل کی جانب بڑھیں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو حقِ اظہارِ رائے دیں اور استصوابِ رائے کروا کر انہیں فیصلے کا موقع دیں، مودی سرکار پچھلی حکومتوں کی طرح مسئلے کا حل سڑکوں، کالج، یونیورسٹی اور نوکری کے جھانسے میں ڈھونڈ رہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوامخواہ چھیڑ خانیاں کرنے والے بھارتی عسکری تھنک ٹینکس کو آخر کون یہ سمجھائے کہ آزادی کا نعم البدل مادی اشیا نہیں ہوتیں ورنہ انگریز سرکار ہی کیوں جاتی؟
برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں لگنے والا کرفیو اب تک جاری ہے۔ اس دوران 55 سے زائد افراد شہید جبکہ 700 زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بھارت کی پُرامن فوج کے ہاتھوں چھرے والے گن کی زد میں آ کر اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پُرامن دنیا کو سوچنا پڑے گا کہ کیا کشمیروں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ بھارت جب چاہے اور جتنا چاہے بہائے اور وہ یہ تماشا صرف اس لیے دیکھتی رہے کہ اس کی مصنوعات بھارت کی منڈیوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی رہیں.
کشمیری ہونے کے ناطے میں مودی سے کہوں گا کہ ہمیں پیسوں میں مت تولیے۔ ہم آزادی سے کم کسی چیز پر راضی ہونے کے نہیں۔ ہم پچھلے 69 سالوں میں اپنے اس موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ کیا آپ کو اتنی سی بات اب بھی سمجھ نہیں آئی؟
تبصرہ لکھیے