ہوم << بلوچستان: امن، سازش اور مستقبل کے امکانات - ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

بلوچستان: امن، سازش اور مستقبل کے امکانات - ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

بلوچستان کا مسئلہ محض ایک صوبائی معاملہ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی بقا اور استحکام سے جڑا ہوا ایک نازک ترین سوال ہے۔ یہاں کے حالات کو سمجھنے کے لیے تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور بین الاقوامی سیاست کے تمام پہلوؤں کو ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھنا ہوگا۔ آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض چند سالوں کی کہانی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے دہائیوں کی محرومی، ناانصافی اور بیرونی مداخلت کارفرما ہے۔

بلوچ قوم کو تاریخ میں ہمیشہ سے ایک آزاد مزاج قوم کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ ان کی روایت میں غیرت، بہادری اور خودمختاری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بلوچستان نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی، لیکن یہ شمولیت مکمل دلجمعی سے زیادہ حالات کا تقاضا معلوم ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان کے ساتھ وفاق کا سلوک دیگر صوبوں کے مقابلے میں مختلف ہے۔ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان میں فوجی کارروائی نے اس احساس محرومی کو ہوا دی۔ اس کے بعد سے بلوچستان میں ایک مستقل بیزاری کی فضا قائم ہو گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی گئی۔

آج بلوچستان کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین بنیادی محرکات کو سمجھنا ہوگا: پہلا محرک بلوچ عوام کا وہ تاریخی غصہ ہے جو انہیں وفاقی حکومت کے خلاف محسوس ہوتا ہے۔ دوسرا اہم محرک بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت ہے جو اسے بین الاقوامی طاقتوں کی نظروں میں خاص بناتی ہے۔ تیسرا اہم عامل بیرونی مداخلت ہے جو بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے میں مصروف ہے۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں گیس، تیل، سونا اور کوئلہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ گوادر پورٹ جیسے منصوبے نے اس خطے کو عالمی تجارت کے لیے انتہائی اہم بنا دیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچ عوام کو ان منصوبوں سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ بلوچ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انہیں روزگار کے مواقع نہیں مل رہے اور ان کے وسائل باہر سے آئے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔

دوسری طرف، حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ حکومت کے مطابق بلوچستان میں ہونے والے تمام ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ تاہم، بلوچ عوام کا اعتماد ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔ ایک بڑا مسئلہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے رویے کو لے کر بھی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ حکومت نے کچھ اصلاحات کی ہیں، لیکن مقامی سطح پر ان کے اثرات محدود نظر آتے ہیں۔

بلوچستان میں عدم استحکام کے پیچھے بیرونی عناصر کا ہاتھ بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ پاکستان کی مخالف طاقتیں بلوچستان میں افراتفری پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں بیرونی ایجنسیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ کچھ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو بیرونی مالی امداد حاصل ہے جو ان کی کارروائیوں کو تقویت پہنچا رہی ہے۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن کیا صرف فوجی کارروائیاں ہی کافی ہیں؟

بلوچستان کے مسائل کا حل فوجی کارروائیوں سے زیادہ سیاسی اور معاشی اقدامات میں پوشیدہ ہے۔ سب سے پہلے تو بلوچ عوام کے ساتھ اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ان کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرا اہم قدم بلوچ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اگر بلوچستان کے نوجوانوں کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے تو وہ کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔ تیسرا اہم نکتہ انصاف کے نظام کو مضبوط بنانا ہے۔ بلوچ عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں اور انہیں انصاف ملے گا۔

بلوچستان کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا کوئی فوری حل موجود نہیں۔ تاہم، اگر حکومت اور بلوچ عوام کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو جائے تو اس مسئلے کو حل کرنا ممکن ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی ترقی پورے ملک کی ترقی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بلوچستان میں امن تبھی ممکن ہے جب وہاں کے عوام کو یہ احساس ہو کہ ان کا مستقبل محفوظ ہے اور ان کے وسائل پر ان کا حق ہے۔

بلوچستان کی پریشانیوں کا علاج توپوں اور بندوقوں سے نہیں، بلکہ انصاف کے ترازو، ترقی کے راستے، اور باہمی اعتماد کی مضبوط بنیادوں سے ہی ممکن ہے۔ بلوچستان میں امن تبھی ممکن ہے جب ہر بلوچ یہ محسوس کرے کہ اس کی قسمت کا فیصلہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے،

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

ڈاکٹر مسلم یوسفزئی اقرا نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں انھیں دلچسپی ہے۔ تحقیقی و تنقیدی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل پر گہری نظر ہے۔ مختلف اخبارات اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ علمی و عوامی مکالمے کو نئی راہوں سے روشناس کروانا چاہتے ہیں

Click here to post a comment